اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے باہر بلوچ خاندانوں کا پرامن احتجاج آج 17ویں روز بھی جاری رہا۔ کھلے آسمان تلے بیٹھے ان مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے گرفتار رہنماؤں کو فوری طور پر رہا کیا جائے اور بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا خاتمہ کیا جائے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کیا جائے تاکہ آئین کے مطابق انہیں انصاف مل سکے۔
مظاہرین نے شکوہ کیا کہ دو ہفتے سے زائد وقت گزرنے کے باوجود اسلام آباد انتظامیہ نے انہیں شدید گرمی میں کیمپ لگانے کی اجازت نہیں دی۔ پریس کلب کی جانب جانے والا راستہ اب بھی بسوں اور خار دار تاروں سے بند کیا گیا ہے تاکہ احتجاج کو عوامی نظروں سے اوجھل رکھا جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ “ہمارے مطالبات سننے کے بجائے، ہمیں ہراساں کیا جا رہا ہے۔ انٹیلیجنس اہلکار ہمارا پیچھا کرتے ہیں، ویڈیوز بناتے ہیں اور روزانہ نسلی بنیادوں پر نشانہ بناتے ہیں۔ کئی اہلکار میڈیا کے نمائندے بن کر آتے ہیں تاکہ مظاہرین کی ریکارڈنگ کر کے دھمکایا جا سکے۔”
آج اسلام آباد میں تحریکِ تحفظِ آئین پاکستان کی جانب سے منعقد آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایڈووکیٹ نادیہ بلوچ نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے گرفتار رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ دہرایا اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے کہا کہ “صورتحال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ آئین، جو شہریوں کے تحفظ کے لیے بنایا گیا تھا، اب اسی کو استعمال کرتے ہوئے بلوچستان میں جاری ظلم و جبر کو قانونی جواز دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔”
نادیہ بلوچ نے عدالتی نظام پر بھی شدید تنقید کرتے ہوئے کہا، “پورا عدالتی نظام بک چکا ہے۔ کل ماہ رنگ بلوچ کے کیس کی سماعت ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ انہیں ایک بار پھر ریمانڈ پر بھیج دیا جائے گا۔”
انہوں نے سوال اٹھایا، “میری بہن اور ان کے ساتھیوں پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ پراکسیز ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر انہیں 3 ماہ 15 دن ایم پی او کے تحت کیوں رکھا جا رہا ہے؟ اگر حکومت کے پاس ثبوت موجود ہیں تو انہیں عدالتوں کے سامنے پیش کیوں نہیں کیا جا رہا؟”