بی وائی سی رہنماء ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کے والد کی جبری گمشدگی کو 4 مہینے مکمل، سوشل میڈیا کمپئین

100

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماء ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کے والد کے جبری گمشدگی کو چار مہینے مکمل ہونے سماجی رابطوں کی سائٹ پر بلوچ وائس فار جسٹس کی جانب سے ایک آگاہی مہم چلائی گئی۔

ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کے والد میر بشیر احمد پانچ اپریل سے پاکستانی خفیہ اداروں کی تحویل میں ہے۔ اہلکاروں کی جانب سے لواحقین کو بذریعہ بتایا گیا کہ صبیحہ بلوچ گرفتاری دیں یا پھر بلوچ یکجہتی کمیٹی سے مستعفی ہوجائے۔ پاکستانی خفیہ اداروں کی جانب سے میر بشیر احمد کو قتل کرنے سمیت خاندان کے دیگر افراد کو جبری طور لاپتہ کرنے کی دھمکیاں دی گئی ہے جبکہ رواں مہینے ان کے گھر پر بھی چھاپہ مارا گیا۔

آگاہی مہم میں حصہ لیتے ہوئے بی وائی سی رہنماء اور انسانی حقوق کی علمبردار سمی دین بلوچ نے لکھا کہ 5 اپریل کو ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کے والد میر بشیر احمد زہری کو جبری طور پر لاپتہ کر دیا گیا۔ اس کا واحد جرم؟ ایک بلوچ خاتون کا باپ ہونا ہے، جو ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت رکھتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ریاست نے اسے اپنے کیے کی وجہ سے غائب نہیں کیا، بلکہ اس وجہ سے کہ اس کا تعلق کس سے ہے۔
یہ بلوچستان کی وحشیانہ حقیقت ہے، جہاں جبری گمشدگیوں کو اجتماعی سزا اور سیاسی دھمکی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

سمی دین نے لکھا کہ بعض اوقات ریاست ان اغوا کی تردید کرتی ہے۔ بعض اوقات یہ متاثرین کو مورد الزام ٹھہراتا ہے۔ لیکن مقصد ایک ہی رہتا ہے: مزاحمت کرنے والی ہر آواز کو خاموش کرو۔ ہم میر بشیر زہری کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں اور ریاست کے ہاتھوں لاپتہ کیے گئے ہر بلوچ فرد کا مطالبہ کرتے ہیں۔

سیاسی شخصیت افراسیاب خٹک نے لکھا کہ اجتماعی سزا مظلوم لوگوں کی مزاحمت کے خلاف ایک عام نوآبادیاتی حکمت عملی ہے۔ بی وائی سی کی رہنما ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کے والد میر بشیر احمد کی قید اس کی ایک مثالی مثال ہے۔ یہ قابل مذمت ہے۔

بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے لکھا کہ ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کے والد میر بشیر احمد پاکستانی فوج کے ہاتھوں اغوا ہونے کے بعد سے لاپتہ ہے۔ یہ صرف جبری گمشدگی نہیں ہے، یہ بلوچ خاندانوں کو نشانہ بنانے کی اجتماعی سزا کا ایک ظالمانہ عمل ہے۔ خاموشی شراکت ہے۔ سب کو بات کرنی چاہیے۔

زبیر داد نے لکھا کہ “جب وہ صبیحہ بلوچ کو خاموش نہ کر سکے، تو انہوں نے اس کے والد کو اغوا کر لیا۔ یہ انصاف نہیں ہے- یہ اجتماعی سزا، دھمکی اور دہشت گردی ہے، یہ سب ان قوانین کے تحت منع کیا گیا ہے جن کو دنیا برقرار رکھنے کا دعوی کرتی ہے۔”

جبری لاپتہ آصف و رشید بلوچ کی بہن سائرہ بلوچ نے کہا کہ میر بشیر احمد صرف اس “جرم” میں مہینوں سےجبری لاپتہ ہیں کہ وہ ڈاکٹر صبیحہ کے والد ہیں، جنہوں نے سیاسی طور پر بلوچ حقوق اور نسل کشی کےخلاف آواز اٹھائی۔ ریاست اجتماعی سزا سے ایک بیٹی کی آواز خاموش کرنا چاہتی ہے۔ کیا ایسے ہتھکنڈے بلوچستان کا مسئلہ حل کر سکتے ہیں؟

اس موقع پر صبیحہ بلوچ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ میرے والد میر بشیر احمد کا واحد جرم یہ ہے کہ وہ میرے والد ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ریاست نے انہیں کسی جرم میں گرفتار نہیں کیا بلکہ میری وجہ سے کہ میں بولتی ہوں مزاحمت کرتی ہوں اور حق بات پر خاموشی سے انکار کرتی ہوں۔ اس بنا پر انھیں جبری لاپتہ کیا ہے۔

ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے کہا کہ یہ صرف ایک ذاتی سانحہ نہیں ہے، یہ ہر بلوچ کے لیے ایک ظالمانہ پیغام ہے جو اپنی آواز بلند کرنے کی ہمت کرتا ہے۔ میرا کیس زندہ ثبوت ہے کہ بلوچستان میں جبری لاپتہ کرنے کے واقعات اتفاقی نہیں بلکہ یہ دانستہ سیاسی دباؤ کے لیے استعمال کیا جانے والا ہتھیار ہے۔ اس کا مقصد واضح ہے کہ ہمیں توڑا اور الگ تلگ کیا جائے لیکن اس طرح نہ مجھے اور نہ ہم میں سے کسی اور کو خاموش کیا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے کہا کہ جبری لاپتہ کرنے کو بین الاقوامی سطح پر ایک جرم کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے، اس کی بلا جھجک مذمت کیا جانا چاہیے، اور بغیر کسی رعایت کے اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ یہ عمل انصاف، انسانیت اور وقار کے ہر اصول کی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں اپنے والد اور تمام لاپتہ افراد کی فوری اور بلاشرط رہائی کا مطالبہ کرتی ہوں۔ میں بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں، صحافیوں، اور جمہوری حکومتوں سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ اپنی خاموشی توڑیں۔ بلوچ کی زندگیاں اہمیت رکھتی ہیں۔ ہمارا دکھ اور تکلیف سیاسی اور مزاحمت جائز ہے۔

گذشتہ شب ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے اپنے والد کی باحفاظت بازیابی کےلئے سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ #ReleaseMirBashirAhmad کے نام سے ایک کیمپین بھی لانچ کی تھی جس میں اس کی بازیابی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔