اسلام آباد دھرنا: بلوچ لواحقین کے احتجاج کو دو ہفتے مکمل، ریاستی ہراسانی اور بے حسی برقرار

84

بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی زیر حراست قیادت کی اہلخانہ کی جانب سے اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے باہر جاری پُرامن احتجاج کو آج دو ہفتے مکمل ہو چکے ہیں، تاہم ریاستی رکاوٹوں، پولیس نگرانی اور ہراسانی کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔

احتجاج کا مقصد بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کی رہائی اور جبری گمشدگیوں کے خاتمے کا مطالبہ ہے لیکن ریاستی اداروں نے اس کے برعکس احتجاج کو دبانے مظاہرین کو تنہا کرنے اور ان کی آواز خاموش کرنے کی کوششیں تیز کردی ہیں۔

اسلام آباد نیشنل پریس کلب کی سڑک بدستور بند ہے راستے میں بسیں اور رکاوٹیں کھڑی کر کے احتجاجی خواتین، بچوں اور بزرگوں کو عوامی نظروں سے اوجھل رکھا جا رہا ہے۔

مظاہرین کے مطابق پاکستانی انٹیلیجنس ادارے مسلسل مظاہرین کی نگرانی میں مصروف ہیں طلبہ کی ویڈیوز بنائی جا رہی ہیں، شناختی کارڈ چیک کیے جا رہے ہیں اور شرکاء کی ان کے عارضی ٹھکانوں تک پیچھا کیا جارہا ہے۔

اسلام آباد میں گذشتہ دو ہفتے سے شدید گرمی کے باوجود مظاہرین کو کیمپ لگانے کی اجازت نہیں دی گئی نہ سایہ، نہ پانی جس کے باعث روزانہ کئی خواتین اور بچے گرمی سے نڈھال ہو کر بے ہوش ہو جاتے ہیں، اس سے قبل بارش میں بھی انہیں کسی قسم کا تحفظ فراہم نہیں کیا گیا اور ریاست نے ان کے بنیادی انسانی حقوق کو مسلسل نظر انداز کیا۔

اس کے باوجود یہ خاندان اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ان کا کہنا ہے کہ جب تک ان کی آواز سنی نہیں جاتی اور جب تک انصاف نہیں ملتا وہ یہاں سے نہیں جائیں گے۔

آج کے احتجاج کے دوران بلوچ یکجہتی کمیٹی کے گرفتار قیادت اور دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین نے ایک عوامی سیشن منعقد کیا، اس موقع پر متاثرہ خاندانوں نے اپنے پیاروں کی گمشدگی کی کہانیاں سنائیں ان کے اثرات پر بات کی اور اپنی جدوجہد کو میڈیا کے سامنے رکھا۔

یہ سیشن فیس بک اور ٹوئٹر پر براہ راست نشر بھی کیا گیا، اس موقع پر صحافیوں، ادیبوں، طلبہ، انسانی حقوق کے کارکنوں اور شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

لواحقین کا اس موقع پر کہنا تھا ہم صحافیوں، انسانی حقوق کے محافظوں، سول سوسائٹی اور تمام باخبر شہریوں سے اپیل کرتے ہیں کہ آگے آئیں، ان مظلوم خاندانوں کی آواز بنیں ان سے ملیں، اور خاموشی کو توڑیں۔