فیکٹ چیک: بی ایل اے جنگجو صہیب بلوچ کو لاپتہ افراد سے جوڑنے کی کوشش، حقائق کیا ہے؟

351

گذشتہ دنوں قلات میں پاکستانی فوج کے ساتھ جھڑپوں میں جانبحق ہونے والے بلوچ لبریشن آرمی کے رکن صہیب بلوچ عرف امیر بخش کو جبری لاپتہ شخص کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

مبینہ طور پر پاکستانی فوج سے منسلک جعلی اکاؤنٹس کی جانب سے پروپیگنڈہ کرنے کے بعد پاکستانی میڈیا پر عسکری حکام کی جانب سے خبریں چلائی جارہی ہے۔ صہیب بلوچ کو بلوچ یکجہتی کمیٹی اور ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سے جھوڑ کر جانبحق ہونے کے وقت جبری لاپتہ شخص کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔

حقائق:

اس حوالے سے “بلوچستان فیکٹس” نے شواہد کیساتھ ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ صہیب بلوچ کی جبری گمشدگی اور بازیابی کو سیاق و سباق کے بغیر پیش کرکے جبری گمشدگیوں کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ 9 اگست 2024 کی بازیابی کے بعد صہیب کو کبھی لاپتہ شخص قرار نہیں دیا گیا۔

تفصیلات فراہم کرتے ہوئے بتایا گیا کہ ‏صہیب بلوچ کو 24 جولائی 2024 کو راجی مچی کے ایونٹ کے دوران سینکڑوں نوجوانوں سمیت کوئٹہ سے گرفتار کرکے لاپتہ کیا گیا البتہ وہ 16 دن بعد 9 اگست کی رات 2 بجے 21 دیگر ایکٹوسٹس کے ہمراہ بازیاب ہوئے جس کو دی بلوچستان پوسٹ نے بھی رپورٹ کیا جبکہ سماجی رابطوں کی سائٹ پر ان کے بھائی نے بھی ان کی بازیابی کی خبر دی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ‏جولائی 2024 کے راجی مچی مظاہروں کے دوران بلوچستان بھر، خصوصاً کوئٹہ سے، سینکڑوں افراد کو اغوا کر کے لاپتہ کیا گیا ، جن کی تعداد 400 کے قریب تھی ‏انہی میں ایک نوجوان صہیب بلوچ بھی شامل تھے، جو 23 اور 24 جولائی کی درمیانی شب کوئٹہ کے علاقے کلی اسماعیل سے اپنے گھر سے لاپتہ ہوئے۔

2 اگست کو بلوچستان حکومت کے نوٹس کے باوجود صہیب سمیت دیگر کئی نوجوانوں کو جبری لاپتہ رکھا گیا اور ان کی گرفتاری ظاہر نہیں کی گئی’ جبکہ صہیب 16 دن بعد، 9 اگست 2024 کو رات 2 بجے بازیاب ہوکر گھر پہنچے۔ اس کے بعد، یعنی 9 یا 10 اگست کے بعد، ان کی جبری گمشدگی سے متعلق کوئی پوسٹ یا تصویر سوشل میڈیا پر موجود نہیں رہی۔

‏صہیب بلوچ نے غالباً 2024 کے آخر میں بلوچ لبریشن آرمی (BLA) جوائن کی اس کے بعد وہ بی وائی سی کا کسی مقام پر حصہ رہے؟ اگرچہ یہ قدم اس نے اس وقت اٹھایا جب سی ٹی ڈی کوئٹہ نے انہیں متعدد بار طلب کر کے ذہنی اذیت کا نشانہ بنایا۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جبری گمشدگی کے شکار نوجوان نہ صرف طویل عرصے تک لاپتہ رہتے ہیں بلکہ بازیابی کے بعد انہیں شدید ذہنی و جسمانی تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ نتیجتاً وہ ایسے راستے کا انتخاب کرتے ہیں جو ریاست کے لیے مزید مسائل پیدا کرتا ہے۔

‏ان کا کہنا ہے کہ اس سنگین مسئلے کو سمجھنے کے بجائے ریاستی پروپیگنڈا مشینری نے سوشل میڈیا پر جبری گمشدگیوں کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کے خلاف ہی محاذ کھول رکھا ہے۔ ‏ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچ نوجوانوں کو ایسے حالات سے نہ گزارا جائے کہ وہ تشدد کے جواب میں تشدد کا راستہ اپنائیں۔

واضح رہے ایسے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں جہاں بلوچ نوجوان جبری گمشدگی کا شکار ہوکر رہائی کے بعد مسلح تنظیموں کو جوائن کرچکے ہیں۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ ایسے افراد کو رہائی کے بعد بھی دوبارہ جبری گمشدگی کا خدشہ ہوتا ہے جس کے باعث وہ پہاڑوں کی جانب رخ کرتے ہیں جبکہ کئی واقعات میں ریاستی تشدد سے نوجوانوں میں نفرت پڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ ایسے قدم اٹھاتے ہیں۔