فیصلوں کا فُقدان، انا کی سیاست اور ایک قربانی زدہ قوم!
تحریر: عبدالواجد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان کی تحریکِ آزادی کا سفر صرف بندوق، جبر اور آنسووں کا نہیں بلکہ قربانی، امید اور نظریاتی وابستگی کا سفر ہے یہ وہ تحریک ہے جو ماؤں کے سینے اجاڑ چکی ہے، نوجوانوں کی قبریں بے نشان کر چکی ہے، اور پھر بھی ایک ایسے سوال پر قائم ہے جس کا جواب ہماری ضمیر آج بھی دینے سے قاصر ہے۔
تحریکیں نظریات سے مضبوط ہوتی ہیں، افراد سے نہیں۔ لیکن جب شخصیات خود کو تحریک سے بڑا سمجھنے لگیں تو اتحاد بکھرتا ہے، سمت کھو جاتی ہے اور تحریک داخلی کمزوریوں کا شکار ہو جاتی ہے۔ بلوچستان کی تحریک میں کئی بار یہ دیکھنے کو ملا کہ قیادتیں اختلافِ رائے کو ذاتی حملہ تصور کرتی ہیں، سیاسی و سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایک دوسرے کے خلاف الزامات کی نذر ہو جاتے ہیں اور بعض رہنما خود کو “ناگزیر” سمجھ کر اجتماعی فیصلوں سے بالا تر ہو جاتے ہیں۔
یہ انا دراصل دشمن کے لیے وہ دروازہ کھول دیتی ہے جہاں سے وہ دراڑوں میں داخل ہو کر پورے ڈھانچے کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔
بلوچستان میں ہزاروں افراد لاپتا ہیں، اجتماعی قبریں دریافت ہو رہی ہیں، خواتین احتجاج میں بیٹھیں ہیں، اور نسل کشی جیسے جرائم کی فائلیں عالمی دارالحکومتوں کے دروازے کھٹکھٹا رہی ہیں لیکن جواب خاموشی ہے۔
اقوامِ متحدہ ہو یا یورپی یونین، انسانی حقوق کے عالمی ادارے ہوں یا عالمی پریس سب کچھ جانتے ہیں، مگر کچھ نہیں کہتے، شاید وجہ یہ ہے کہ بلوچستان کے پاس بین الاقوامی سطح پر وہ سفارتی وزن نہیں جو عالمی ضمیر کو بیدار کر سکے، یا شاید ریاست کی “نام نہاد انسدادِ دہشتگردی” کی حکمتِ عملی کو وہ بلاچون و چرا قبول کر چکے ہیں۔
ریاستی جبر کے باوجود بلوچستان کے عام لوگ خصوصاً نوجوان، خواتین اور بوڑھے جس بے لوثی سے تحریک سے جڑے ہیں وہ دنیا کی کسی بھی آزادی کی جدوجہد کے لیے قابلِ رشک مثال ہے۔
نہ وسائل ہیں، نہ تحفظ ، پھر بھی احتجاج، جدوجہد، اور مزاحمت جاری ہے۔ لاپتا افراد کی مائیں برسوں سے دن و رات دھرنے پر بیٹھی ہیں، ہر گھر میں ایک لاش، ایک گمشدہ فرد، یا ایک زخمی خواب موجود ہے۔ یہ وہ عوامی قوت ہے جو اگر درست قیادت اور عالمی حمایت سے جڑ جائے تو تقدیر کا دھارا بدل سکتی ہے۔
پاکستانی ریاست نے صرف بندوق سے نہیں بلکہ نرم لیکن مہلک حکمتِ عملی سے بھی بلوچستان کو قابو میں رکھنے کی کوشش کی ہے ریاست”سوکالڈ قومی دائرے” کے نام پر بلوچ کلچر اور شناخت کو دھندلا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے لوٹ مار کو “ترقی” کا نام دے رہا ہے
سیاسی مفاہمت کے نام پر مصنوعی قیادتیں کھڑا کررہا ہے جو دراصل تحریک کو اندر سے کمزور کرنے کا ذریعہ بن رہی ہیں۔ میڈیا بلیک آؤٹ کے ذریعے عالمی نظروں سے سچ چھپا کر یک طرفہ بیانیہ مضبوط کررہا ہے۔ ریاست کا ہنر یہی ہے کہ وہ استحصال کو پالیسی، جبر کو امن، اور خاموشی کو رضا مندی بنا کر پیش کرتی ہے۔
لیکن بلوچ بقاء کو سامنے رکھ کر سوال یہ نہیں رہا کہ ظلم ہو رہا ہے یا نہیں ، سوال یہ ہے کہ ہم ظلم کے خلاف فیصلہ کب کریں گے؟
سوال یہ نہیں کہ دنیا خاموش ہے سوال یہ ہے کہ ہم خود کتنے بلند آواز ہیں؟ اور سوال یہ نہیں کہ قیادت موجود ہے سوال یہ ہے کہ کیا وہ قیادت نظریہ کی خادم ہے یا انا کی غلام؟
بلوچستان کی تحریک ایک بار پھر اس “ٹرین” کے دروازے پر کھڑی ہے اگر ہم نے وقت پر فیصلہ نہ کیا تو ہمیں پھر صرف تاریخ کے صفحات میں ایک “مسئلہ” بنا کر یاد رکھا جائے گا نہ کہ ایک مزاحمت، ایک تحریک، یا ایک آزاد قوم کی مثال کے طور پر۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔