بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی رہنماء سمی دین بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان کی مائیں اور بہنیں گزشتہ دس دنوں سے اسلام آباد کی سڑکوں پر پُرامن احتجاج کر رہی ہیں، لیکن افسوس کہ مین اسٹریم میڈیا اور پیشہ ور صحافیوں کی جانب سے مکمل خاموشی ہے ایسے میں چند سوشل میڈیا انفلوئنسرز اور خود ساختہ “صحافی” جو نہ میڈیا اخلاقیات سے واقف ہیں، نہ صحافت کے بنیادی اصولوں سے، صرف ویوز اور فالوورز کے لالچ میں مظاہرین کی ویڈیوز زبردستی بنا کر انہیں ہراساں کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ یہ رویہ نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ پروفائلنگ، نگرانی، ہراسانی اور ریاستی پروپیگنڈے کے فروغ کی ایک خطرناک شکل بن چکا ہے جس میں یہ لوگوں کو بے نقاب کرنے کے چکر میں خود بے نقاب ہورہے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ان افراد کی جانب سے بلوچ مظاہرین، طلباء اور خواتین کی رضامندی کے بغیر بنائی جانے والی ویڈیوز، دراصل ان کی پرائیویسی اور تحفظ کے حق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ صحافت کا بنیادی اصول ہے کہ متاثرہ یا احتجاج کرنے والے افراد کے ساتھ عزت، ہمدردی اور رازداری کے ساتھ پیش آیا جائے نہ کہ انہیں کیمرے کے سامنے زبردستی لا کر مزید انہیں ہراساں کیا جائے۔
سمی بلوچ نے کہاکہ ایسے ٹاؤٹس، چاہے وہ انفلوئنسرز ہوں، ڈیجیٹل میڈیا گروپس، ٹک ٹاکرز یا یوٹیوبرز، جو ایسے پروپیگنڈے میں شامل ہیں جس کا نشانہ وہ بے بس اور لاچار مائیں اور بچے بنتے ہیں جو صرف انصاف کے حصول کے لیے اسلام آباد آئے ہیں، انکا ان مظلوموں کے درد کی تضحیک کرنا، انہیں ہراساں کرنا، اور ان کے پُرامن احتجاج کے خلاف ریاستی پروپیگنڈہ کو تقویت دینا نہ صرف انسانیت اور اخلاقیات کے منافی ہے بلکہ ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔
مزید کہاکہ ایسے سستے میڈیا انفلوئنسرز کی حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ وہ کہاں سے کنٹرول ہو رہے ہیں، ان کا یہ پروپیگنڈا کوئی بھی صاحبِ شعور اور باخبر شخص قبول نہیں کرے گا۔