شہید چیئرمین صفیہان کرد اور خوف کی زنجیریں – بادوفر بلوچ

177

شہید چیئرمین صفیہان کرد اور خوف کی زنجیریں

تحریر: بادوفر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

شہید آغا محمود جان احمدزئی نے ایک دفعہ اپنے معمول کے بشخندہ کے ساتھ کہا کہ ہر بلوچ کو اپنا حصہ اس جہد میں اس طرح ڈالنا ہے جیسے ایک مکان میں اینٹ ڈالا جاتا ہے۔ ضرور بلوچ اپنے اس ذمہ داری سے انجان نہیں بلکہ وہ اسے بخوبی نبھا رہا ہے۔ شہید ورنا چیئرمین صفیہان کرد کی بہادری اور قومی ذمہ داری میں ہر وقت صف اول میں رہنے سے آغا کے بتائے ہوئے باتیں اور انداز یاد دلانے لگے۔ وہ خوف سے پاک اور نت نئی حکمت عملیوں کے عکسِ مجسم تھے۔ قلیل مدت میں جس جانبازی سے اُس نے محاذ میں خوف و ہچکچاہٹ سے پاک ہو کر اپنا فرض نبھایا ہے، اُس سے فکر و عمل کا چراغاں ہوگا اور ہر سرمچار اس چراغاں سے اپنے حصے کی روشنی لیکر قبضہ گیریت کے اندھیروں سے لڑے گا کیونکہ جب ایک جہدکار خوف کی زندانِ غیر سے آزاد ہو اور شعور کی وادیوں کو اپنے دل میں جگہ دے چکا ہو، وہ عمل کی کھوج میں ہر اُس قوت سے نبردآزما ہونے میں آخری حد کو چھو لے گا جو اُس کے مدِمقابل ہو کر اُس کی وجود و شناخت کو چیلنج کر رہا ہوگا۔

شہید صفیہان کی جانبازی اور خوف کے وادیوں سے کوسوں دُور مصروفِ عمل ہونے سے اسکاٹ لاری کے یہ الفاظ ذہن کے دریچوں کو وا کرتے ہیں کہ “جاؤ، وہ کام کرو جس میں خوف تمہیں روکنے نہ پائے۔ سو سال بعد ہم میں سے کوئی یہاں نہیں ہوگا۔ آج کے زندہ سات ارب انسانوں میں سے ہر ایک اس دنیا سے رخصت ہو چکا ہوگا۔” ان الفاظ میں بیان کردہ یہ سچائی افسردہ کرنے کے لیے نہیں، بلکہ جگانے کے لیے ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ جو خوف ہمیں آج روک رہا ہے، وہ عارضی ہے، وقتی ہے، اور زندگی کے بڑے منظرنامے میں بالکل بےمعنی ہے۔

خوف بے عملی کے کوکھ سے جنم لیکر ہمارے احساسات، شعور اور افکار پہ جال بُنتی ہوئی اُنہیں اپنی تئیں ناتواں بنا دیتی ہے۔ اس کے سائے میں ہم بے دست و پا بن جاتے ہیں اور ہر اُس قوت سے ڈرنے لگتے ہیں جو بظاہر کوہِ گراں معلوم ہوتی ہے، لیکن اپنے اندر اتنی سکت و استعداد نہیں رکھتی کہ حوصلے اور عزم سے لیس جہدکار کو ڈھیر کر سکے لیکن جب عمل کا دروازہ شعور کی ہوا سے ایک بار کھل جاتا ہے، تو خوف کے سائے مدھم پڑتے ہوئے غائب ہو جاتے ہیں اور بہادری کی روشنی آنکھوں کو تاریکی کے زندان سے آزاد کرتی ہے۔

اسی طرح ہم اکثر خوف کے تابع ہو کر فیصلے کرتے ہیں؛ ناکامی کا خوف، مسترد ہونے کا خوف، شرمندگی کا ڈر، یا یہ خیال کہ ہم کافی نہیں ہیں لیکن خود سے پوچھو جب تم اس دنیا میں نہیں رہو گے، تو کیا یہ سب کچھ کوئی معنی رکھے گا؟ کیا لوگوں کی رائے تب بھی تمھاری میراث پر اثر ڈالے گی؟ کیا تمہارا ہچکچانا تب بھی قابلِ فہم ہوگا؟ یہ کچھ کرنے کا فیصلہ ہی ہوتا ہے جس سے ہماری زندگی کے نقوش و رنگ بدل جاتے ہیں اور ایک نئی شکل و صورت نمودار ہونے لگتی ہے۔ ہمارا ہر ایک قدم فقط ہمارے وجود و زیست کے لیے نہیں، بلکہ ہر اُس شخص کے لیے ایک نئے صبح کی نوید لائے گا جو خوف کے خول میں ہچکچاہٹ کا لبادہ پہن کر خاموشی میں عافیت سمجھ کر آنکھیں چُرانے لگتے ہیں۔

دوسری جانب، حقیقت یہ ہے کہ دنیا جلد ہی بھول جاتی ہے لیکن وہ لوگ جو ہمت کرتے ہیں جو خوف کے باوجود کچھ بناتے ہیں، بولتے ہیں، عمل کرتے ہیں وہی لوگ تاریخ رقم کرتے ہیں کیونکہ تاریخ کے اوراق میں اگر عمل کو نکال دیا جائے، اگر عزم و حوصلے کے سنہرے قصیدوں کو مدھم کیا جائے، تو وہ لفظوں کے امبار کے علاوہ کچھ بھی معنی نہیں رکھتی۔ تاریخ شہید صفیہان جیسے باہمت شخص کو اپنی آغوش میں لیتی ہے اور ہر اُس قاری کے سامنے اس ناقابلِ تسخیر سچائی کو عیاں کرتی ہے جو علم و عمل کی کشمکش میں خوف کے دامن سے چھٹکارہ پانے کی تلاش میں سرگرداں ہو۔ اسی لیے خود سے نکل کر آگے بڑھو اور ہر اُس عمل کو آزماؤ جس سے خوف طاری ہوتا ہے کیونکہ آزمائش ہی خوف سے آزادی کی پہلی سیڑھی ہے۔ جیسا کہ مشہور کہا گیا ہے: “تم وہ ہر موقع کھو دیتے ہو جو تم نے آزمایا ہی نہیں۔”

ہم کاملیت یا پرفیکشن کے تصور سے اکثر اس حقیقت سے بیگانہ ہو جاتے ہیں کہ زندگی بہادروں کو نوازتی ہے، کامل لوگوں کو نہیں۔ جے کے رولنگ کو درجنوں بار رد کیا گیا۔ اسٹیو جابز کو اپنی ہی کمپنی سے نکالا گیا۔ نیلسن منڈیلا نے 27 سال قید کاٹی مگر وہ رکے نہیں، کیونکہ انہیں اس بات کا یقین تھا کہ خوف عارضی ہوتا ہے، لیکن پچھتاوا ہمیشہ کے لیے دل کو تسکین و راحت سے دُور رکھتا ہے اور انسان ناکامی نہیں بلکہ اپنے ہی ہاتھوں سے خود کا گلا گھونٹ دیتا ہے۔ اسی لیے ہمیں کاملیت کے تصور کو اپنے تئیں دفن کرکے جبر کے خلاف کمربستہ ہونا چاہیے کیونکہ ایک دن جب سب کچھ وا ہو جاتا ہے، جب شبِ ظلمت کے سائے چھٹ جاتے ہیں اور امن و آزادی کی روشنی حاکمیت کا روشن پرچم لہراتی ہے تب شہید صفیہان جیسے جانبازوں کی قربانی اور عمل کی کہانیاں سُریلے گیت اور لوریاں بن کر گلیوں کو چار چاند لگاتے ہیں اور وقت کی روانی میں ایک نئی رنگ و ہنگ شامل کرتے ہیں۔

اسی لیے، اگر تمہارے دل میں کوئی خواب ہے، کوئی خیال جو تمہیں چین و قرار سے رہنے نہیں دیتا، کوئی سچ جو تم کہنا چاہتے ہو تو جاؤ، وہ کام کرو اور اپنی روح کو اس قید سے آزاد کرو۔ اگر اُس کام میں موت کا سایہ منڈلاتا پھرے، یا مصائب کے پہاڑ باطن و ظاہر میں کھڑے ہوجائیں، تب بھی اپنے وجود کے معنی کو کھوجنے اور اپنی راحت و تسکین کو تلاشنے کے لیے آگے بڑھتے رہو۔ بے عملی موت کا دوسرا نام ہے۔ آج اگر قبضہ گیریت کے سامنے خوف کا لبادہ پہن کر قسمت کو ملامت کرو گے تو کل تم سے منسلک کسی بھی شئے کے نقوش باقی نہیں رہیں گے اور یوں 100 سال بعد تمہارے خوف کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی مگر یہ ضرور اہم ہوگا کہ تم نے کیا کیا ہے۔ اور یقیناً تاریخ شہید صفیہان جیسے بہادر سپوتوں کو ہی اپنی آغوش میں لے گی جو خوف کے ان زنجیروں سے آزاد ہو کر آخری سانس تک کچھ کرنے اور مسلسل چلنے کی استطاعت میں ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔