ڈغاری سانحہ اور فیس بک کے غیرت مند
تحریر: زرین جان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان کے علاقے مستونگ، ڈغاری میں مبینہ طور پر غیرت کے نام پر ایک لڑکی اور لڑکے کو سرِ عام قتل کر دیا گیا۔ یہ افسوسناک واقعہ عیدالاضحیٰ سے چند روزقبل پیش آیا، جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد ہر طرف شدید غم و غصہ کی فضا پھیل گئی۔ واقعے میں مقامی افراد کی بےحسی اور قاتلوں کا سفاکانہ طرز عمل دیکھ کر سماجی حلقے ہل کر رہ گئے ہیں۔ معلومات کے مطابق مقتولین کی شناخت احسان اور بانو کے نام سے ہوئی ہے۔ اس قسم کا واقعہ قابلِ مذمت اور انتہائی افسوسناک ہے، جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
سماجی کارکنان اور انسانی حقوق کے علمبردار حکومتی اقدامات پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ ماضی میں بھی ایسے کئی واقعات کی تحقیقات یا تو مکمل نہیں ہوئیں یا مجرم قبائلی دباؤ کی وجہ سے سزا سے بچ نکلے، جب کہ بعض اوقات ریاستی اداروں کے افراد بھی ان کی سرپرستی کرتے رہے ہیں۔
دوسری جانب اگر آج کے دور میں دیکھیں تو فیس بک پر غیرت کے دعویداروں کا رش لگا نظر آتا ہے۔ کوئی اسے اپنی غیرت کا مسئلہ بنا کر کمنٹس اور پوسٹس میں دھواں دھار مذمت کرتا ہے، تو کوئی ادب اور صحافت کی آڑ میں نام نہاد افسانے اور کالم لکھنے میں مصروف ہے۔ کئی لوگوں کے پاس تو اتنا وقت بھی نہیں کہ وہ دو سطور لکھ دیں، بس تصاویر شیئر کر کے اپنا فرض پورا سمجھ لیتے ہیں۔ کچھ کو یہ موقع بھی مل جاتا ہے کہ وہ ان معصوم متاثرین کے فرضی نام رکھ کر خود کو پھر بلوچستان کا منٹو ثابت کرنے کی کوشش کریں۔
اس سطحی رد عمل پر غصے کے ساتھ ساتھ دکھ بھی ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا کے اکثر مجاہد صرف وقتی طور پر چند پوسٹس شیئر کر کے پھر خاموش ہوجاتے ہیں، اور نہ جانے کب ان کی غیرت دوبارہ جاگے گی۔ لیکن سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ بلوچستان وہ واحد خطہ ہے جہاں خواتین کے حقوق سمیت ہر طبقے کو انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا سامنا ہے۔
سوال یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر بلوچ اور انسانی حقوق کے دعوے دار، دانشور، صحافی اور حقوقِ نسواں کے علمبردار اُس وقت کہاں ہوتے ہیں جب برسوں سے بلوچ خواتین نام نہاد قبائلی سرداروں کے ظلم و جبر کا شکار رہتی ہیں؟
انہیں یہ کیوں دکھائی نہیں دیتا کہ بلوچ قوم آج بھی بنیادی انسانی حقوق، تعلیم، صحت اور انصاف کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے؟ یہاں لاکھوں خواتین آج بھی تعلیم اور علاج جیسی بنیادی سہولتوں کے لیے ترس رہی ہیں۔
ہفتوں اور مہینوں تک اپنے پیاروں کی گمشدگی پر احتجاج کرنے والی ماؤں اور بہنوں کی آنکھوں میں امید اور چہروں پر مایوسی عیاں ہوتی ہے، پھر بھی یہ بے بسی اور اذیت اُن لوگوں تک نہیں پہنچتی جنہیں عام حالات میں حقوق کا بہت خیال ہوتا ہے۔
جب بلوچ مرد اور خواتین اپنے جائز مطالبات کے لیے سڑکوں پر نکلتے ہیں تو ان پر جھوٹے الزامات عائد کیے جاتے ہیں، انہیں قید و بند میں ڈالا جاتا ہے اور ان کی آواز زور زبردستی سے دبائی جاتی ہے، لیکن سوشل میڈیا کے علمبردار اس موقع پر بھی خاموش رہتے ہیں۔
بلوچ ماؤں اور بہنوں پر سرِ عام تشدد ہوتا ہے، انہیں سڑکوں پر گھسیٹا جاتا ہے، مگر پھر بھی حقوق نسواں کے یہ علمبردار اپنی غیرت کو جگانے سے قاصر رہتے ہیں۔
گزشتہ چند برسوں میں ہزاروں مظلوم بلوچ خواتین اور معصوم بچے اپنے گمشدہ پیاروں کی بازیابی اور ریاستی مظالم کے خلاف میلوں پیدل چل کر اسلام آباد پہنچے، لیکن حکومتی اور ریاستی اداروں نے انہیں انصاف دینے کی بجائے مزید تشدد، آنسو گیس اور گرفتاریوں کا نشانہ بنایا، جس سے ان کے دکھ اور بڑھ گئے۔
یہ امر حیرت انگیز ہے کہ خواتین کے حقوق کے نام پر علمبرداری کا دعویٰ کرنے والے حلقے جب بلوچستان کی عورت ریاست اور معاشرت، دونوں کے ظلم سے نبرد آزما ہوتی ہے، تو عمومی طور پر خاموش تماشائی بن کر ایک طرف ہو جاتے ہیں۔
یہ وقت ہے کہ ہم سب اپنے ردِعمل کو سطحی سوشل میڈیا پوسٹوں سے آگے لے جائیں اور بلوچستان کی خواتین سمیت بلوچوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف ایک حقیقی، مؤثر اور مسلسل آواز اٹھائیں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی جہاں کہیں بھی ہو، اس پر خاموش تماشائی نہیں، بہترین شہریوں اور انسانوں کی طرح حقیقی عملی کردار نبھانا ہمارا فرض ہے۔ کیونکہ معاشرت میں اصل تبدیلی تب ہی آئے گی جب انصاف اور غیرت چند گھنٹوں کی سوشل میڈیا سرگرمیوں کی بجائے ہمارے رویے، سوچ اور اجتماعی عمل کا حصہ بن جائے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔