خواجہ آصف کا بلوچوں کے متعلق متعصبانہ بیان، سمی دین نے آڑے ہاتھوں لے لیا

443

پاکستانی سیاست دان اور وزیر خواجہ آصف نے کوئٹہ سے متصل علاقے میں پسند کی شادی پر جوڑے کو قتل کے واقعے کو بلوچ سماج و تحریک آزادی جوڑتے ہوئے بیان دے دیا جس پر انسانی حقوق کی کارکن سمی دین بلوچ نے ان کے بیان کو شرمناک قرار دیتے ہوئے آڑے ہاتھوں لے لیا۔

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کا سماجی رابطے کی ویب سائٹس ’ایکس‘ پر کہنا تھا کہ جن لوگوں نے ریاست کے خلاف بندوق اٹھائی ہوئی ہے، وہ پہلے اس نظام کے خلاف آواز اٹھائیں جو آپ کے آس پاس رائج ہے، سارا پاکستان آپ کے ساتھ کھڑا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ اس ظلم کے نظام کے ذمہ دار آپ کے بھائی بند ہیں، دوسرے صوبوں سے آئے مسافر اور روزی روٹی کمانے والے مزدور نہیں ہیں جن نہتوں کو آپ گولیاں مارتے ہیں، آپ کی جدوجہد کی بنیاد منافقت ہے، آپ کی شناخت وطن دشمنی ہے۔

 وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ قتل ہونے والے دونوں بچوں نے پسند کی شادی کی، ڈیڑھ سال چھپ کر رہتے رہے پھرانہیں ڈھونڈ لیا گیا، جرگے نے واپسی کا جھانسہ دیا، وہ لوٹ آئے پھر جرگہ نے ان کی موت کا فیصلہ سنا دیا۔

خواجہ آصف نے کہا کہ پہلے لڑکے کو گولی ماری پھر لڑکی کو بھی گولیوں سے بھون دیا، قرآن پاک ہاتھ میں تھامے خاتون کی بے بسی بتا رہی ہے کہ اس کو مارنے والے یہ سارے مرد کتنے غیرت مند ہیں۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما و انسانی حقوق کی علمبردار سمی دین بلوچ نے خواجہ آصف کے بیان پر کہا ہے کہ افسوس اور شرم کا مقام ہے کہ حکومت کا ایک موجودہ وزیر، بجائے اس کے کہ اس واقعے پر حکومتی نااہلی تسلیم کرے اور اپنی حکومت کو ایسے گھناؤنے واقعات پر مجرم ٹھہرائے جن کی وجہ ریاستی لاقانونیت، عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر عوامی بے اعتمادی، اور اسلحے کے بے دریغ استعمال کی کھلی چھوٹ ہے وہ الٹا اپنی نااہلیوں کا بوجھ دوسروں کے سر ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ منافقت دیکھیے, اگر یہی واقعہ آپکی کسی دوسری مخالف حکومت کے دور میں پیش آتا، تو سب سے پہلے یہی لوگ حکومت پر الزام تراشی کرتے، لیکن چونکہ آج اقتدار ان کے پاس ہے، تو کوئی ملامت یا شرمندگی دکھائی نہیں دیتی۔

سمی دین نے مزید کہا کہ جب آپ خود کہتے ہیں کہ بلوچستان آپ کے “کنٹرول” میں ہے، تو پھر ایسے واقعات دن دہاڑے کیسے پیش آرہے ہیں؟ آپ لوگوں کو ریاست سے مایوس کر کے، خود اُنہیں مسلح تنظیموں کی طرف دیکھنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ کیا آپ کو اندازہ ہے کہ آپ کس قدر خطرناک رجحان کو فروغ دے رہے ہیں؟

سمی دین نے اس حوالے سے مزید کہا کہ یاد رکھیے آواران میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس میں لواحقین نے ریاستی اداروں کے بجائے ایک مسلح تنظیم سے رجوع کیا، اور ان مسلح تنظیم نے لڑکی کے لواحقین کی مدد کر کے فیملی کو ریلیف دیا۔ آپ چاہتے ہیں کہ لوگ ریاست سے اُمید چھوڑ دیں؟ تو یہ رجحان پہلے ہی بڑھتا جا رہا ہے، اور پھر انہی لوگوں کو ریاست دہشتگرد قرار دے کر یا تو لاپتہ کر دیتی ہے یا مار دیتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یاد دہانی کے لیے عرض ہے کہ ماضی میں ایسے کئی واقعات پیش آئے ہیں جن میں حکومت کے ایم این ایز اور ایم پی ایز پر الزامات لگے، لیکن اُن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ چھ ماہ پہلے خضدار میں ایک لڑکی کے اغواء کا واقعہ پیش آیا، جس پر لواحقین نے اپنی مدد آپ کے تحت احتجاج کیا اور لڑکی بازیاب کروائی، لیکن مجرم آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں کوئی عدالتی کارروائی نہیں ہوئی ۔

سمی دین نے کہا کہ اسی طرح چند سال قبل ایک موجودہ وزیر پر ایک ماں اور اس کے دو معصوم بچوں کے قتل کا سنگین الزام لگا، مگر ریاستی مشینری کے بھرپور تعاون سے نہ صرف اسے فوراً ضمانت دلوا دی گئی، بلکہ بعد ازاں آپ کی حکومت نے اسے اپنی صفوں میں شامل کر لیا۔ آج وہ شخص بلوچستان اسمبلی میں آپ کی جماعت کی نمائندگی کرتے ہوئے بطورِ وزیر خدمات انجام دے رہا ہے گویا کہ مقتولین کے خون کا کوئی حساب ہی نہ ہو۔

سمی دین نے کہا کہ بلوچ معاشرے میں خامیاں ضرور ہو سکتی ہیں، لیکن تنقید سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکیے اور آپکا صوبہ جو ایک جنگ زدہ علاقہ بھی نہیں ہے بھی نظر میں رکھیے، جہاں ہر سال غیرت کے نام پر بلوچستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ عورتیں قتل کی جاتی ہیں۔