اسلام آباد: بلوچ مظاہرین کو پولیس نے ایک بار پھر روک دیا، سڑک پر دھرنا جاری

85

اسلام آباد میں جبری گمشدگی کا شکار ہونے والے افراد کے لواحقین اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے گرفتار رہنماؤں کے اہلِ خانہ کا دھرنا آج پانچویں روز بھی جاری رہا۔

مظاہرین نے آج ایک بار پھر نیشنل پریس کلب جانے کی کوشش کی لیکن پولیس نے ایک بار پھر راستے سیل کر دیے اور انہیں آگے بڑھنے سے روک دیا، لواحقین نے پولیس رکاوٹوں کے قریب ہی دھرنا جاری رکھا۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ماہ رنگ بلوچ کے لواحقین کے مطابق اسلام آباد پولیس نے ایک مرتبہ پھر مظاہرین کو ہراساں کیا اور پرامن احتجاج سے روکنے کی کوشش کی۔

ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد پولیس ہمارے ساتھ مجرموں اور دشمنوں جیسا سلوک کر رہی ہے۔

مظاہرین نے سوال اٹھایا کیا بلوچستان سے اسلام آباد آ کر پرامن احتجاج کرنا جرم ہے؟ پاکستان کے ادارے ہمیں بتائیں کہ ہمارے شہری و انسانی حقوق پر قدغن کیوں لگائی جا رہی ہے؟ ہمیں دیوار سے کیوں لگایا جا رہا ہے؟ اگر ہمیں کسی بھی قسم کا نقصان پہنچا تو اس کی ذمہ داری براہِ راست اسلام آباد پولیس اور ریاستی اداروں پر عائد ہوگی۔

مظاہرین نے الزام عائد کیا کہ پولیس نے ان کے ساتھیوں اور ہمدرد وکلاء سے بدتمیزی اور ہاتھاپائی کی، انہوں نے کہا کہ ان کا احتجاج مکمل طور پر پرامن ہے۔

پریس کلب جانے سے روکے جانے کے بعد مظاہرین نے مسلسل دوسرے روز سڑک پر ہی دھرنا دیا۔

انہوں نے صحافیوں سے اپیل کی کہ وہ ان کی آواز بلند کریں، ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اسلام آباد پریس کلب جانے اور اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے سے روکا جا رہا ہے، جبکہ پریس کلب اور صحافیوں کی خاموشی شرمناک ہے وہ اسلام آباد پولیس اور انتظامیہ کی ناانصافی پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہے۔

بلوچ مظاہرین کی جانب سے حکومت کے سامنے دو مطالبات پیش کیے گئے ہیں جن میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت پر قائم جھوٹے مقدمات کا خاتمہ اور ان کی رہائی اور بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا خاتمہ اور لاپتہ افراد کی بازیابی شامل ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی نے بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں اور ذرائع ابلاغ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس صورتحال کا نوٹس لیں اور مظاہرین کے بنیادی حقوق کی بحالی میں اپنا کردار ادا کریں۔