‎زنجیروں سے بلند اعلان: وہ لمحہ جو انقلاب میں ڈھل گیا – دُر بی بی

88

‎زنجیروں سے بلند اعلان: وہ لمحہ جو انقلاب میں ڈھل گیا

تحریر: دُر بی بی

دی بلوچستان پوسٹ

‎دس دن کی جبری خاموشی کے بعد، جب 18 جولائی کو کوئٹہ کی انسدادِ دہشت گردی عدالت (ATC) کے باہر وہ منظر ابھرا، تو یہ کوئی معمولی قانونی کارروائی نہ تھی۔ یہ ایک لمحہ تھا جو نسلوں کے سینے میں اتر گیا۔ ریاست کی بکتر بند گاڑیوں میں جکڑے، ہاتھوں میں زنجیریں، اور چہروں پر صبر کا کرب لیے، جب بلوچ یکجہتی کمیٹی (BYC) کی قیادت کو عدالت لایا گیا — ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، گل زادی بلوچ، بیبگر، صبغت اللہ شاہ جی، بیبو بلوچ اور ان کے والد ماما غفّار بلوچ تو اس دن صرف قیدی نہیں آئے تھے، تاریخ خود چلتی ہوئی عدالت کی دہلیز پر پہنچی تھی۔

‎لیکن سب لمحوں سے گہرا، سب آنکھوں سے تیز تر وہ نظارہ تھا جب بیبو کی نگاہ اس کے بابا پر پڑی۔ بیبو نے جیسے ہی ماما غفّار بلوچ کو دیکھا، ایک صدیوں پر محیط تشنگی لمحہ بھر میں پگھل گئی۔ بیٹی اپنے بابا کی جانب دوڑی ، اور وہ گلے جو صرف جسموں کا نہیں بلکہ پورے عہد کا اتصال تھا، وقت میں ٹھہر گیا۔ کوئی لفظ نہیں بولا گیا، مگر ایک انقلاب مکمل طور پر بیان ہو چکا تھا۔

‎باپ اور بیٹی کے اس گلے میں، بلوچ سرزمین کی صدیوں کی پیاس، ماؤں کی چیخیں، گمشدہ نوجوانوں کی سسکیاں، اور بغاوت کی وہ خاموش آگ تھی جسے نہ کوئٹہ کی عدالت بجھا سکی اور نہ زنجیریں کمزور کر سکیں۔

‎چند لمحوں بعد، جب سب قیدیوں کو الگ الگ جیلوں کی طرف لے جایا جا رہا تھا، بیبو کے والد، زنجیروں سے جکڑے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کرتے ہیں۔ کوئی نعرہ نہیں، کوئی تقریر نہیں، بس خاموشی، مگر ایسی خاموشی جو ہر ظلم کے ایوان کو ہلا دے۔ ان کا ہاتھ بلند تھا، بیٹی پہ نگاہ تھی، اور چہرے پہ وہی تسلی جو ایک باپ اپنی بیٹی کو دیتا ہے جب وہ جانتا ہو کہ اُس کا لہو رائیگاں نہیں جائے گا۔ بیبو کا چہرہ پرسکون تھا، جیسے اپنے باپ کی پیٹھ پر لکھی ہوئی دعا پڑھ رہی ہو: مزاحمت کبھی ختم نہیں ہوتی، یہ نسل در نسل منتقل ہوتی ہے۔

‎اور بیبو کے اردگرد جو چہرے تھے، وہ بھی اس داستان کا حصہ تھے۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ وہ قیادت ہے جو ظلم کے منہ پر مسکراتی ہے، اور اس مسکراہٹ میں وہ چٹان جیسا حوصلہ ہے جو کسی طاقتور ریاستی ہتھکڑی سے نہیں ٹوٹتا۔ وہ بلوچ مزاحمتی چادر جو کبھی شہید چیئرمین غلام محمد بلوچ کے کاندھوں پر نمایاں تھی، آج ماہ رنگ نے وہی چادر سنبھال کر پورے بلوچستان میں مزاحمت کا پرچم بنا دیا ہے۔

کوئٹہ کی انسداد دہشتگردی عدالت کے احاطے میں، ریاستی اسلحہ بردار پولیس کے بیچ وہ صرف مسکرا رہی تھی۔۔ ماہ رنگ کی ہنسی، اُن عدالتوں کے چہرے پر تھپڑ تھی جو انصاف کے نام پر جبر کو قانونی شکل دیتی ہیں۔ اُس کی ہنسی اعلان تھی کہ وہ اور اس کی نسل ہارنے نہیں آئی، کیونکہ انہوں نے خوف کے ساتھ جینا سیکھا ہی نہیں۔

وہ ہنس رہی تھی کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ اس کا حوصلہ کسی ایک شخص کا نہیں، ایک قوم کا ہے۔ وہی قوم جو تربت کی تپتی دھوپ میں اپنے بچوں کو مزاحمتی الم باندھنا سکھاتی ہے، اور جو اسلام آباد کی مسلسل برستی بارش میں اپنی ماؤں اور بیٹیوں کے ساتھ فرشِ سڑک پر بیٹھ کر مزاحمت کی گواہی دیتی ہے۔

ماہ رنگ صرف ایک نام نہیں، ایک عہد ہے۔ ایک عہد جو صدیوں کے بعد اب زبان پا رہا ہے، زخموں سے، آنسوؤں سے، اور مسکراہٹوں سے لکھی جانے والی تاریخ کا نیا باب۔

‎ گلزادی کم عمر، مگر خوف سے ماورا۔ ان کی آنکھوں میں وہ روشنی تھی جو دشمن کو اندھا کر دے۔ ایک نوجوان لڑکی، جسے نہ ہتھکڑیاں روک سکیں اور نہ عدالتوں کی سرخ فیتے کی خاموشی۔ وہ جنہوں نے اپنے عزم کی دھار کو نرم لہجوں میں نہیں چھپایا بلکہ ہر بار بولی تو گویا دل کے زخموں سے لہو ٹپک رہا ہو۔

عدالت کے احاطے میں جب گلزادی نے نعرہ بلند کیا، تو وہ صرف آواز نہ تھی، وہ صدیوں کی دبی ہوئی چیخ تھی جو بالآخر لبوں سے باہر آئی۔ نعرے کی شدت سے ان کا چہرہ سرخ ہوگیا، آنکھوں میں آنسو نہیں، انگارے تھے، اور آواز میں ذرا سی بھی لرزش نہ تھی۔

یہ وہ لمحہ تھا جب ایک نوجوان لڑکی نے دنیا کو بتا دیا کہ مزاحمت کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔ نہ وہ نعرہ صرف دشمن کے خلاف تھا، بلکہ ایک پیغام تھا۔ ہم خاموش نہیں رہیں گے، اور ہم تمھاری عدالتوں میں بھی بے زبان قیدی بن کر نہیں آئیں گے۔

‎بیبگر، وہ نوجوان جسے ریاست نے “معذور” کا لیبل دے کر کمزور ثابت کرنا چاہا، لیکن وہ خود ایک نعرہ بن گیا۔ وہ اپنی ویل چیئر پر سوار عدالت لایا گیا، مگر اس کرسی نے اسے قید نہیں کیا، اس نے اس کرسی کو انقلاب کا منبر بنا دیا۔

‎بیبگر کی گونجتی ہوئی آواز، اس کے نعرے، اور اس کے چہرے کی غیر متزلزل سنجیدگی، سب نے یہ ثابت کیا کہ جسمانی کمزوری کبھی بھی روح کی شکست نہیں ہوتی۔ وہ چل نہیں سکتا تھا، مگر اس کا حوصلہ اُن لوگوں سے آگے تھا جو پوری طاقت کے ساتھ بھی سچ کے سامنے لرز جاتے ہیں۔

‎دوسری طرف، صبغت اللہ شاہ جی ایک سکوت کی گرج تھے۔ اُن کا وجود ایک ایسی خاموشی کی تصویر تھا جو گہرے سمندر کی طرح اندر ہی اندر طوفان چھپائے بیٹھی ہو۔ اُن کی نگاہوں میں وہ بلندیاں تھیں جہاں صرف آزاد روحیں پہنچتی ہیں۔ ان کی چال میں وہ یقین تھا جو صرف وہی رکھتا ہے جو اپنے راستے اور مقصد دونوں کو پہچان چکا ہو۔

‎وہ نہ چیخے، نہ نعرے لگائے، مگر ان کی موجودگی نے پورے ماحول کو بدل دیا۔ وہ اس قافلے کے روحانی ترجمان تھے، جیسے بلوچ مزاحمت کی روح خود ان کے وجود میں سمٹ آئی ہو۔ ان کے قدموں کے نیچے راستہ خود ہموار ہوتا نظر آ رہا تھا، جیسے تاریخ ان کے پیچھے پیچھے چل رہی ہو۔

ان سب کی عدالت میں موجودگی محض ایک حاضری نہیں تھی، بلکہ ایک اعلان تھا۔ ایک عہد، ایک اجتماعی مزاحمت، جو قانون کی موٹی کتابوں، عدالت کی بلند دیواروں اور ریاست کی زنجیروں سے کہیں زیادہ مضبوط تھی۔ یہ کسی تحریک کی آخری قسط نہ تھی، بلکہ ایک نئی داستان کا ابتدائیہ تھا۔ ایک ایسی داستان جو نہ صرف تاریخ کی کتابوں میں لکھی جائے گی بلکہ دیواروں پر، گلیوں میں، اور نسلوں کی سانسوں میں گونجے گی۔ ان قدموں کی چاپ، ان ہاتھوں کی زنجیروں کی جھنکار، اور ان آنکھوں کی چمک، سب نے گواہی دی کہ سچ کو قید کیا جا سکتا ہے، مگر ختم نہیں۔

اس دن عدالت کے فرش پر جو قدم پڑے، وہ صرف قیدیوں کے قدم نہ تھے بلکہ وہ آزادی کی آہٹ تھی، جو بند عدالتوں، اندھے ججوں، اور مسلح ریاستی محافظوں کو خبر دے گئی کہ بلوچ سرزمین پر اب صرف لاشیں نہیں اٹھیں گی، اب تاریخ اٹھے گی، بغاوت اٹھے گی، بیٹیاں اٹھیں گی۔

جب زنجیروں میں جکڑے ہاتھ فضاؤں کو چیرتے ہوئے اوپر اٹھتے ہیں اور ان کے سائے تختوں پر پڑتے ہیں، تو پھر نہ تاج سلامت رہتے ہیں نہ تلواریں۔ جب معذوروں کی ویل چیئر انقلاب کی گاڑی بن جائے، جب بیٹی باپ کے کندھے سے لگ کر دشمن کو شکست دے، جب عدالتیں انصاف دینے کے بجائے خوف میں پسینے پسینے ہو جائیں تو جان لو، مزاحمت کو کوئی جیل نہیں روک سکتی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔