روڈ ایکسیڈنٹ نہیں قتل!
تحریر: ایم یونس عابد
دی بلوچستان پوسٹ
اس وقت پوری دنیا ایک نئی جدید ترین دور میں مزید ترقی کی طرف تیزی سے سفر کر رہی ہے۔ ہر پرانے چیز کو نئی اور جدید طرز پر بنانے کی سعی کر رہے ہیں۔ اپنے شہریوں کو ان کے حقوق اور تحفظ فراہم کرنے کے لیے نئی راہیں سوجھتی جارہی ہیں۔ بلوچستان کے شاہراہوں پر سفر کرنے والے مسافروں کو ان کے اہل خانہ اپنے پیاروں کو محاذوں پر جانے والے سپاہیوں کی طرح نم آنکھوں کے ساتھ رخصت کرتے ہیں۔ کیا پتا؟ زندہ سلامت، یا زندہ معذور یا کفن میں لپٹی ہوئی دوسروں کے کندھوں پر گھر لوٹ آئے گا۔
ایک دنیا میں ہم ہی ہیں حکومت ہماری قتل عام کر رہی ہے۔ معاشی و جانی مختلف طریقوں سے کہیں روڈ ایکسڈینٹ میں کہیں اغوا و جعلی مقابلوں میں کہیں دھماکوں میں، کہیں چاغی میں دھماکوں میں ہماری مستقبل کو کینسر، موزی مرض دھکیل کر قتل کردیتے ہیں۔
حکومت سیندک و ریکوڈیک، دُدُر، گوادر، سوئی گیس جیسے ہمارے خزانے عالمی منڈیوں میں پہنچا رہی ہے اور مقامی و حق ملکیت کے مالکان پیوند لگے کپڑوں کے ساتھ ننگے پاؤں معاشی بدحالی و افلاس میں زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ایک شہر سے دوسرے شہر تک سفر کے لیے نہ سڑکیں، نہ بہتر ٹرانسپورٹ! بلوچستان کے لوگ جتنے لاپتہ ہوتے جا رہے ہیں تو اس سے کہیں زیادہ روڈ حادثات میں اپنے پیاروں کو کھو رہے ہیں۔
درحقیقت آپ دماغ سے سوچ لیں آپ کو خود اندازہ ہوگا یہ حادثہ نہیں ہے بلکہ قتل ہے۔ حادثہ اسے آپ کہہ سکتے ہیں جو اچانک کسی تکنیکی یا وقتی غفلت سے پیش آئے ہو۔ بلوچستان میں کراچی ٹو چمن نیشنل ہائی وے پر روز لوگ اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں۔ آپ پیش آنے والے واقعات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کیا یہ حادثہ ہے یا سوچی سمجھی قتل! بلوچستان کے روڈوں پر زندہ کم مردے بہت چلتے ہیں۔
درد بے شمار ہیں، کیا کروں سینہ چاک کروں، پیٹوں بال نوچوں۔ پتا نہیں کس زخم پر مرہم رکھوں، بلوچستان لہو لہان ہے، خون تمام بدن سے رستا رواں ہے۔
حال ہی میں میڈیکل ایمرجنسی ریسپانس سینٹر کی ششماہی رپورٹ کے مطابق رواں سال 2025 کے جنوری سے تا جون کے دوران بلوچستان بھر میں 12110 روڈ ٹریفک حادثات رپورٹ ہوئے جن میں 239 افراد جان بحق اور 15690 زخمی ہوئے۔
صرف N-25 ٹراما سینٹر خضدار میں 2412 حادثات ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ مختلف اداروں کی رپورٹس کے مطابق گذشتہ سال 2024 میں بلوچستان بھر میں ٹریفک ایکسڈینٹ میں 471 زندگی کی بازی ہار گئے اور 17500 سے زائد افراد زخمی یا مستقل معذوری کا شکار ہوئے۔
صرف چھ ماہ میں 239 افراد ٹریفک حادثات میں لقمہ اجل بن گئے یعنی بلوچستان میں ہر ماہ میں 39 افراد روڈ حادثات میں مارے جاتے ہیں۔
درحقیقت واقعات اس سے زیادہ ہیں کیونکہ آدھے سے زیادہ رپورٹ نہیں ہوتے۔ اس خونریزی کے باوجود عوام کی حفاظت کے لیے سرکاری سطح پر کوئی حکمت عملی اور پالیسی ساز نہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ وفاقی اور صوبائی ذمہ داروں کو بھٹا کر تحقیقات کرکے تختہ دار پر لٹکایا جائے۔ یہ کوئی جھوٹی مود خطا نہیں بلکہ قتل عام ہے۔
ہر سال سینکڑوں افراد کا جان بحق ہونا اور ہزاروں افراد کا زندگی بھر کے لیے معذوری کا شکار ہونا بہت بڑی اذیت ناک ہے۔ ریاست کی کان پر جوں تک نہیں رینگتی ہے۔ مسافروں سے بھری بسیں جل کر راکھ ہو چکی ہیں۔ انسانی جانیں کئی دفعہ جل کر کوئلے بن گئی ہیں۔ ان کی پہچان تک ممکن نہیں ہو سکی ہے۔
ہمارے یہاں صرف فوجی ہی انسانوں میں شمار ہوتے ہیں، باقی عام لوگ اس کیٹیگری میں شامل نہیں، نہ وہ کسی بھلائی کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ مجھے یاد نہیں کہ وفاقی وزیر داخلہ یا وزیراعظم آئے ہوں ان دل سوز واقعات کی سنجیدگی کے ساتھ نوٹس لیے ہوں! اگر ملک میں کہیں ناخوشگوار واقعہ پیش آ جائے جیسے کوئی دھماکہ ہوتا ہے یا کہیں ایف سی یا آرمی کے جوانوں پر حملہ ہوتا ہے۔ پوری میڈیا پر شور برپا ہو جاتی ہے، پارلیمنٹ، جی ایچ کیو سمیت بھونچال آ جاتا ہے۔ اجلاس پر اجلاس بلائے جاتے ہیں۔ سیاسی و ملٹری زوروں پر مل کر بجٹ تیار کیا جاتا ہے۔
کیا یہ قتل نہیں؟ روزانہ بلوچستان میں کراچی ٹو چمن روڈ پر 20 سے 15 تک لوگ مرتے جا رہے ہیں۔ نہ کہیں پریس کانفرنس، نہ اجلاس، نہ ایکشن، نہ تحقیقات، نہ بجٹ مختص، نہ جان سے جانے والوں اور زخمی ہونے والوں کے فیملیوں کے ساتھ اظہار ہمدردی، نہ وظیفہ اور نہ علاج و معالجہ کی سہولت۔
جنگ زدہ علاقوں اور ملکوں میں اتنی جانیں ضائع نہیں ہوتیں جتنی بدقسمت بلوچستان کے لوگ اپنی قیمتی جانوں کو روڈ کے ہاتھوں کھو بیٹھتے ہیں۔ انسانی جانوں کی حفاظت کے لیے کوئی روڈ سیفٹی نہیں۔ سب سے بڑی جان لیوا بات یہ ہے کہ کوچ، بسیں، منی وغیرہ، ان گاڑیوں میں گاڑی مالکان تیل لاد کر گاڑی میں سوار افراد کو تحفظ دیے بغیر ان کی جان کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ اکثر حادثات میں لوگوں کی جانیں گئیں ہیں غیر قانونی ایندھن اور سنگل روڈ پر اوور ٹیک کی وجہ سے۔ بلوچستان کے مسافر آگ کے لاوے پر سفر کرتے ہیں۔ کسٹم حکام اپنی جیبیں بھرنے میں مصروف ہیں، ان کو اور گاڑی مالکان کو ذرا بھی پرواہ نہیں۔ نہ گاڑیوں کی جانچ ہوتی ہے کہ کیا گاڑی سفر کے قابل ہے یا نہیں، نہ ڈرائیور کا لائسنس، نہ ڈرائیور کی عمر وغیرہ کی کوئی قید ہے! اکثر ناقابل سفر گاڑیوں کو چلاتے ہیں، انتظامیہ کی ساز باز سے مالکان اور انتظامیہ دونوں اپنی جائز دولت کی خاطر مسافروں کی زندگی سے کھیلتے ہیں۔
کئی دفعہ تیل بردار کوچوں میں آگ لگی ہے، آگ کی وجہ، تمام سوار افراد بس کے اندر کوئلے کی ڈھیر ہو کر رہ گئے ہیں۔ حکومت سالانہ انفراسٹرکچر کے لیے بجٹ مختص کرتی ہے، فقط کاغذوں میں درج عددوں کے سوا زمینی حقائق پر کچھ نہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔