واحد کمبر: نظریاتی محاذ کا سپاہی – شاری بلوچ

66

واحد کمبر: نظریاتی محاذ کا سپاہی

تحریر: شاری بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ قومی تحریک کی تاریخ ایسی عظیم شخصیات سے بھری ہوئی ہے جنہوں نے اپنی زندگیاں قومی مقصد، زبان، ثقافت اور شناخت کے تحفظ کے لیے وقف کر دیں۔ ان ہی عظیم کرداروں میں واحد کمبر کا نام نہایت نمایاں اور قابلِ احترام ہے۔ ایک ایسا استعارہ، جو فکری استقامت، جدوجہدی عزم، اور قومی شعور کی علامت ہے۔

واحد کمبر ان اولین رہنماؤں میں شامل تھے جنہوں نے 1970 کی دہائی میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے پلیٹ فارم سے قومی سیاست کا آغاز کیا۔ ان کا نظریاتی شعور اور فکری پختگی محض ذاتی سطح تک محدود نہ تھی، بلکہ انہوں نے بلوچ قومی فکر کو قبائلی تنگ نظری سے نکال کر ایک منظم، اجتماعی اور ادارہ جاتی سیاست کی بنیاد فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہی کی فکری کاوشیں بعد میں بلوچ قومی سیاست کی فکری اساس بنیں۔

میرے والد، واحد کمبر، نے اپنی پوری زندگی بلوچ قومی تحریک کے لیے وقف کردی۔ ان کی جدوجہد کا آغاز طالبعلمی سے ہوا، مگر وہ پیران سالی تک اس کارواں سے وابستہ رہے۔

مارچ 2007 میں انہیں پہلی مرتبہ جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔ ریاستی خفیہ اداروں نے انہیں کئی ماہ تک ٹارچر سیلوں میں اذیتیں دیں، تاکہ وہ اپنے نظریے سے دستبردار ہوجائیں، لیکن وہ ہر آزمائش میں ثابت قدم رہے اور کسی بھی ریاستی دباؤ کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا۔

یہ وہی دور تھا جب اکبر بگٹی کو بلوچستان میں فوجی آپریشن کے ذریعے شہید کیا گیا، اور پورے بلوچستان میں ریاستی جبر ایک منظم پالیسی کے طور پر نافذ کیا گیا۔ انہی سالوں میں سینکڑوں بلوچ نوجوان اغوا، لاپتہ یا شہید ہوئے، جن میں واحد کمبر جیسے فکری کارکنوں کی موجودگی نے قومی بیانیے کو بکھرنے سے بچایا۔

تین برس کی قید کے بعد انہیں رہا تو کر دیا گیا، مگر ان کی جدوجہد کی شمع بدستور فروزاں رہی۔ بڑھتی عمر اور بیماری کے باوجود، وہ بلوچ نوجوانوں کے لیے ایک رہنما، ایک استاد اور ایک فکری ستون کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کی بصیرت اور فکری رہنمائی نے نوجوان نسل میں قومی شعور کو بیدار کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔

19 جولائی 2024 کو، جب وہ علاج کی غرض سے ایران کے شہر کرمان میں مقیم تھے، ایک بار پھر اغوا ہوئے، پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے انہیں اغواء کرکے پاکستان منتقل کیا۔ اس بار بھی ریاست پاکستان نے ان کے اغوا کا نہ کوئی اعتراف کیا، نہ ہی انہیں عدالت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اگر آئین و قانون کی بالادستی کا دعویٰ کیا جاتا ہے تو ایک بیمار پیران سالہ استاد کو عدالت کے کٹہرے میں لانے سے کیوں گریز کیا جا رہا ہے؟ اس سوال کا جواب آج بھی ہمیں نہیں دیا جا رہا۔

حقیقت یہ ہے کہ ریاست جانتی ہے کہ بلوچ قومی جدوجہد کوئی جرم نہیں، بلکہ یہ ایک حقیقت ہے۔ واحد کمبر کی جدوجہد صرف ایک فرد کی کاوش نہیں تھی، بلکہ وہ اس قوم کے اجتماعی شعور کی نمائندگی کرتے تھے۔ ان کے اغوا سے یہ تحریک نہ ختم ہوئی ہے اور نہ ہی ہوگی۔

انہوں نے ہمیں سکھایا کہ حق کا حصول صرف ایک سیاسی نعرہ نہیں، بلکہ ایک قومی فرض ہے۔ یہ فکری ورثہ انہوں نے اپنی والدہ سے حاصل کیا، جنہوں نے ان کے اندر قوم دوستی اور آزادی کا اولین چراغ روشن کیا۔ یہی شعور، یہی عزم انہوں نے ہمیں منتقل کیا اور ہم آج اسے نہ صرف سنبھالے ہوئے ہیں بلکہ پورے یقین و بصیرت کے ساتھ آگے بڑھا رہے ہیں۔

اگر ریاست یہ سمجھتی ہے کہ ایک بیمار، عمر رسیدہ استاد کو ٹارچر سیل میں رکھ کر اس تحریک کو ختم کیا جا سکتا ہے، تو یہ اس کی بڑی غلط فہمی ہے۔ بلوچ قومی جدوجہد کسی فرد کی قید یا آزادی سے وابستہ نہیں، یہ ایک پوری قوم کی شعوری بیداری کا سفر ہے ایسا سفر جسے نہ ظلم روک سکتا ہے، نہ جبر اور نہ ہی دھونس۔

واحد کمبر کے نظریات، ان کی استقامت، اور ان کی فکری میراث زندہ ہے، اور جب تک بلوچ قوم زندہ ہے، یہ جدوجہد بھی جاری و ساری رہے گی۔

واحد کمبر محض ایک فرد نہیں، بلکہ بلوچ قومی تحریک کے اس نظریاتی تسلسل کا استعارہ ہیں جو ریاستی جبر، اغوا اور ٹارچر سیلوں سے کبھی مرعوب نہیں ہوا۔ ان کا اغوا ریاستی اداروں کی اس بوکھلاہٹ کا اظہار ہے جو بلوچ قوم کی منظم، باشعور اور نظریاتی مزاحمت سے خائف ہے۔

وہ ہمیں یہ سبق دے گئے کہ قومی تحریک کسی ایک فرد یا رہنما کی موجودگی سے مشروط نہیں ہوتی، بلکہ یہ ایک اجتماعی تاریخی شعور اور سیاسی جدوجہد کا تسلسل ہوتی ہے، جو نسلوں کے اندر منتقل ہوتی ہے۔ آج واحد کمبر کی غیر موجودگی میں بھی ان کی فکر، ان کا نظریہ، اور ان کا سیاسی مقام بلوچ تحریک میں زندہ ہے اور یہی وہ حقیقت ہے جو ریاستی بیانیے کو ناکام اور بلوچ قومی بیانیے کو مضبوط بناتی جا رہی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔