بلوچ یکجہتی کمیٹی نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم انتہائی افسوس اور تشویش کے ساتھ اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کے خلاف جاری عدالتی کارروائی میں بنیادی قانونی اصولوں اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ گزشتہ چار ماہ سے ہمارے ساتھیوں کو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا ہے۔ انہیں بغیر کسی واضح قانونی جواز کے تین ماہ تک 3 ایم پی او کے تحت قید رکھا گیا، اور اس کے بعد بغیر اطلاع کے مزید دس دن تک حراست میں رکھا گیا۔
بیان میں کہا گیا کہ اس کے بعد پرانے اور کمزور ایف آئی آرز کو بنیاد بنا کر انہیں دوبارہ ریمانڈ پر تھانے منتقل کیا گیا۔ دورانِ حراست نہ تو انہیں وکلاء یا اہلِ خانہ سے ملاقات کی اجازت دی گئی، اور نہ ہی ان کے وکالت نامے سائن کرنے دیے گئے، جو کہ قانونی تقاضوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔ حتیٰ کہ عدالت کے حکم کے باوجود، پولیس اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے دانستہ طور پر ان کے قانونی حقوق سلب کیے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ آج جب دس روزہ ریمانڈ مکمل ہوا تو انہیں عدالت میں چور دروازے سے، جس کا استعمال صرف جج صاحبان کے لیے مخصوص ہوتا ہے، خاموشی سے پیش کیا گیا۔ اس عمل کا مقصد واضح طور پر یہ تھا کہ وکلا کو عدالت میں پیش ہونے سے روکا جا سکے۔ تاہم وکلاء اور ساتھیوں کی مزاحمت کے نتیجے میں وکلاء بالآخر عدالت میں پیش ہوئے۔
“تشویشناک امر یہ ہے کہ عدالت میں نہ تو پچھلے دس دن کے ریمانڈ کی کوئی تفتیشی رپورٹ پیش کی گئی، اور نہ ہی کوئی پیش رفت ظاہر کی گئی۔ اس کے باوجود، سرکاری وکیل کی محض زبانی درخواست پر حاضر جج محمد امین مبین صاحب نے مزید پندرہ دن کا ریمانڈ منظور کر لیا، وہ بھی بغیر کسی قانونی وضاحت یا ہمارے وکلاء کے دلائل سنے بغیر۔”
بیان میں کہا گیا کہ یہ اقدام نہ صرف آئین و قانون کی خلاف ورزی ہے بلکہ اس بات کی نشان دہی بھی کرتا ہے کہ مذکورہ جج جانبدارانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے خفیہ اداروں کے دباؤ میں فیصلے کر رہے ہیں۔ عدالت، جو کہ انصاف کی علامت ہونی چاہیے، خود سیاسی جبر کا آلہ کار بن رہی ہے۔
مزید کہا گیا کہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کیس کی نگرانی ایک غیر جانبدار، آزاد اور خودمختار عدالتی فورم کے ذریعے کی جائے تاکہ ہمارے ساتھیوں کو ان کا آئینی اور قانونی حق مل سکے، اور عدلیہ کی ساکھ اور غیر جانبداری پر عوام کا اعتماد بحال ہو