بلوچستان: بجٹ عوامی فلاح کی بجائے پروپیگنڈہ، پروٹوکول و تشہیر پر خرچ – تحقیقی رپورٹ

98

بلوچستان کے مالی سال 2024-25 اور 2025-26 کے بجٹ دستاویزات کی روشنی میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان سیکریٹریٹ نے بجٹ کا ایک بڑا حصہ عوامی فلاحی منصوبوں کی بجائے تفریح، پروپیگنڈہ، تشہیری تقاریب اور وی آئی پی پروٹوکول پر مختص کر دیا ہے۔ یہ انکشافات حکومت کی ترجیحات پر سوالیہ نشان اٹھاتے ہیں، خاص طور پر بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے میں، جہاں بنیادی سہولیات کی شدید کمی ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ کے تحائف، ظہرانوں، استقبالیوں اور تفریح کے لیے مختص بجٹ کو 40.5 کروڑ روپے سے بڑھا کر 118.3 کروڑ روپے کر دیا گیا ہے یعنی تقریباً تین گنا اضافہ۔

اسی طرح، کانفرنسز اور ورکشاپس کے لیے مختص 2 کروڑ روپے، حکومتی ذرائع کے مطابق، دراصل آن لائن و آف لائن پروپیگنڈہ مہمات پر خرچ کیے جا رہے ہیں۔ ان مہمات میں “براق ڈیجیٹل” جیسے پلیٹ فارمز مرکزی حیثیت رکھتے ہیں، جو حکومت کے حق میں بیانیہ تشکیل دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق، ان پروپیگنڈہ مہمات میں بلوچ نوجوانوں کی شمولیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ بیشتر افراد، جنہیں اس مہم میں آگے لایا گیا ہے، غیر بلوچ ہیں، اور مہم کا اصل ہدف پنجاب کی شہری آبادی ہے۔

ان مہمات کا مقصد بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اٹھنے والی تنقید کو “دشمن قوتوں کا بیانیہ” قرار دینا اور ریاستی موقف کو “سافٹ امیج” کے ذریعے پیش کرنا ہے۔

انکشاف ہوا ہے کہ 19 تا 21 اپریل 2024 کو کوئٹہ میں منعقدہ ایک کانفرنس پر 2 کروڑ 80 لاکھ روپے خرچ کیے گئے۔ اس تقریب کی میزبانی فرح عظیم شاہ (سابق سرکاری ترجمان، موجودہ ایم پی اے) نے کی۔

سرکاری دستاویزات کے مطابق، اس ایونٹ کا بنیادی مقصد بلوچستان میں جبری گمشدگیوں پر ہونے والی تنقید کا جواب دینا اور ریاستی بیانیے کو “عوامی حمایت” کا لبادہ پہنانا تھا۔

وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ کے سفر و نقل و حرکت پر بھی بجٹ میں نمایاں اضافہ کیا گیا ہے۔ سفر کے اخراجات 2 کروڑ 15 لاکھ سے بڑھا کر 2 کروڑ 77 لاکھ روپے کردی گئی ہے جبکہ وی آئی پی طیاروں و ہیلی کاپٹروں کے پٹرول و مرمت میں 146 فیصد اضافہ کی گئی یہ نئی رقم 8 کروڑ 41 لاکھ روپے بنتی ہے۔

ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ میں 40 سے زائد افراد پر مشتمل ڈیجیٹل ٹیم قائم ہے، جس کا مقصد جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے حکومت کے حق میں بیانیہ تشکیل دینا ہے۔

یہ جعلی اکاؤنٹس اکثر “بلوچ” ناموں سے بنائے جاتے ہیں تاکہ عوام کو یہ تاثر دیا جا سکے کہ حکومت کے حق میں بولنے والے دراصل بلوچ نوجوان ہی ہیں۔

پروپیگنڈہ چہروں کی شناخت

1. تانیا بازئی

ماضی میں بلوچ حقوق کی وکالت کرنے والی وکیل، حالیہ برسوں میں اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور حمایت شروع کی، ان کی تعلیمی اسناد پر سوالات اور چینی سفارتکاروں سے مالی روابط کی اطلاعات موجود، ماضی میں جن بلوچ کارکنوں کا دفاع کرتی تھیں، اب انہیں “بھارتی ایجنٹ” قرار دیتی ہیں۔

2. بابر خجک

سابقہ اسلام پسند اور فوج مخالف کارکن، موجودہ رکن پاکستان پیپلز پارٹی بلوچستان، ریاستی اداروں کے نقاد سے، ریاستی بیانیے کے دفاع میں تبدیل، اب بلوچ مزاحمتی آوازوں کے خلاف سرگرم ہے۔

اختتامیہ: ریاستی بیانیہ بمقابلہ زمینی حقیقت

بلوچستان حکومت کا موجودہ بجٹ واضح کرتا ہے کہ حکومت کی ترجیح عوامی مسائل سے زیادہ ریاستی بیانیے کا دفاع ہے۔ تعلیم، صحت، روزگار اور انسانی حقوق جیسے بنیادی مسائل ثانوی حیثیت اختیار کر چکے ہیں، جبکہ تمام تر وسائل اور توانائی تشہیر، پروپیگنڈہ، اور طاقتور طبقات کی خدمت پر مرکوز ہے۔

یہ طرزِ حکمرانی نہ صرف جمہوری اقدار سے متصادم ہے بلکہ بلوچ عوام کے اعتماد کو مزید متزلزل کرنے کا باعث بھی بن رہا ہے۔


نوٹ: یہ رپورٹ تحقیقی صحافی “کیّا بلوچ” کی ٹوئٹر تھریڈ پر مبنی ہے، جسے مختلف سرکاری دستاویزات اور معتبر ذرائع سے تصدیق کے بعد مرتب کیا گیا ہے۔