افغان شاعر مطیع اللہ تراب دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے

43

پشتو زبان کے مشہور شاعر مطیع اللہ تراب دل کا دورہ پڑنے کے باعث پیر کے روز انتقال کر گئے۔

افغان میڈیا کے مطابق، مطیع اللہ تراب کو منگل کے روز صوبہ ننگرہار میں سپردِ خاک کیا گیا۔

پشتون ادبی حلقوں، شاعروں اور ادب سے محبت رکھنے والوں نے ان کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔

طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی ایکس پر لکھا “عوامی شاعر مطیع اللہ تراب صاحب کی وفات نے ہمیں سخت رنجیدہ کیا۔ اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے جنت الفردوس اور ان کے اہل خانہ و عزیز و اقارب کے لیے صبر جمیل کی دعا کرتے ہیں۔

مطیع اللہ تراب افغانستان کی مشہور “نارنج گل مشاعرہ” میں اپنی تنقیدی شاعری کی وجہ سے شہرت حاصل کر چکے تھے۔ ان کی نظمیں سوشل میڈیا اور ملکی ٹی وی چینلز پر بڑے پیمانے پر نشر ہوتی تھیں۔ وہ اکثر افغانستان میں غیر ملکی افواج کی موجودگی پر تنقید کیا کرتے تھے۔

رواں سال مارچ میں جلال آباد میں نارنج گل مشاعرہ کے دوران تراب نے اسٹیج پر ایسے اشعار سنائے جنہوں نے تنازعات کو جنم دیا۔ انہوں نے لڑکیوں کے اسکول کھولنے کا مطالبہ کیا اور طالبان کے امیر ملا ہبت اللہ اخندزادہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ بہتر حکمرانی چاہتے ہیں تو قندھار کے بجائے کابل آ جائیں۔

مطیع اللہ تراب مارچ 1971 میں افغانستان کے مشرقی صوبے ننگرہار کے ضلع خوگیانی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ جنوبی صوبہ خوست میں اپنے خاندان کے ساتھ گزارا، جہاں ان کا ایک گاڑیاں مرمت کرنے کا ورکشاپ تھا اور اسی ذریعہ معاش سے وہ اپنے خاندان کی کفالت کرتے تھے۔

گزشتہ کئی برسوں سے وہ پشتون قوم پرستی اور افغان ملی سوچ پر مبنی شاعری کر رہے تھے۔

سابق حکومت کے دور میں بھی وہ سرکاری مشاعروں میں تنقیدی شاعر کے طور پر آواز بلند کرتے رہے، اور 2021 کے بعد طالبان کے دورِ حکومت میں بھی مختلف اہم تقاریب میں ان کی شرکت دیکھی گئی۔