انجینئرنگ یونیورسٹی خضدار کے طالبعلم، ظفر اللہ بنگلزئی کی جبری گمشدگی کو 15 برس مکمل ہو گئے۔ ظفر اللہ 13 جولائی 2010 کو اپنے ماموں ڈاکٹر سرور کے ہمراہ گاؤں کابو، نزد اسپلنجی، تحصیل دشت، ضلع مستونگ سے ایک آپریشن کے دوران حراست میں لیے گئے تھے، جس کے بعد سے وہ لاپتہ ہیں۔
ظفر اللہ بنگلزئی انجینئرنگ یونیورسٹی خضدار کے سول ٹیکنالوجی ڈیپارٹمنٹ میں فائنل ایئر کے طالبعلم تھے۔ ان کی والدہ کے مطابق ان کی طویل گمشدگی نے خاندان کو شدید ذہنی اور جذباتی اذیت میں مبتلا کر دیا ہے۔
ظفر اللہ کی والدہ نے بتایا ہمارا گھر ایک قبرستان بن چکا ہے، تمام خوشیاں ہم سے چھن چکی ہیں۔ ہم نے ریاستی اداروں، کمیشنز، عدالتوں اور ہر ممکن فورم سے رجوع کیا، مگر کوئی ہماری فریاد سننے کو تیار نہیں ۔
مایوسی کے عالم میں انہوں نے بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں اور انصاف کے عالمی اداروں سے اپیل کی ہے کہ وہ ان کے بیٹے کی بازیابی کے لیے آواز بلند کریں۔
انہوں نے کہا میں دنیا کے انصاف پسند اداروں اور انسانی حقوق کی تمام تنظیموں سے اپیل کرتی ہوں کہ میرے لختِ جگر ظفر اللہ بنگلزئی کے لیے آواز بلند کریں تاکہ انہیں رہائی مل سکے۔