بلوچستان بھر میں پاکستانی فورسز پر منظم اور مربوط حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ حملے ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب بلوچ آزادی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) نے بلوچستان بھر میں ایک وسیع آپریشن “بام” کے آغاز کا اعلان کیا ہے۔
“بام” بلوچی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی “سحر” یعنی “سورج کے طلوع ہونے کے وقت” کے ہیں۔
کیچ، خاران، خضدار، اور پنجگور سمیت بلوچستان کے مختلف اضلاع سے بھی پاکستانی فورسز پر حملوں کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ ان حملوں میں فوجی کیمپ، چوکیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
مقامی ذرائع کے مطابق، ان حملوں میں بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا اور کئی مقامات پر فائرنگ کا تبادلہ کئی گھنٹوں تک جاری رہا۔
واشک سے موصولہ اطلاعات کے مطابق، نامعلوم مسلح افراد نے لیویز کی ایک چوکی پر حملہ کرکے اس پر مکمل قبضہ کرلیا۔ ذرائع کے مطابق حملہ آوروں نے نہ صرف اسلحہ ضبط کیا بلکہ چوکی کے کمروں اور موجود گاڑیوں کو بھی آگ لگا دی۔
بلوچستان لبریشن فرنٹ نے کل رات مختصر بیان میں آپریشن بام کا اعلان کیا۔ ترجمان نے کہا کہ بی ایل ایف کا آپریشن بام بلوچ جنگ آزادی میں ایک نئی صبح کا آغاز ہے۔ ترجمان نے کہا کہ یہ کارروائیاں “ساحلِ بلوچ سے لے کر کوہِ سلیمان” تک پھیلائی جائیں گی۔
بلوچستان لبریشن فرنٹ ایک عرصے سے بلوچستان کی آزادی کی سرگرم عمل ہے۔ اور مختلف اوقات میں پاکستانی فورسز کو مختلف نوعیت کے حملوں میں نشانہ بناتی رہی ہے۔
مبصرین کا ماننا ہے کہ یہ کارروائیاں نہ صرف عسکری بلکہ علامتی پیغام بھی دے رہی ہیں۔ بلوچستان میں جاری حالیہ حملے محض وقتی ردعمل نہیں بلکہ ایک مسلسل اور گہری تحریک کا مظہر ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ بی ایل ایف کے “آپریشن بام” کا دائرہ کار اور ہم آہنگی اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچ آزادی پسند تنظیموں کی تنظیمی صلاحیت اور فیلڈ میں موجودگی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ مختلف علاقوں میں بیک وقت حملے اور ریاستی انفراسٹرکچر کو نشانہ بنانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیمیں نہ صرف حکمت عملی کے لحاظ سے پختہ ہو چکے ہیں بلکہ انہیں مقامی سطح پر تعاون بھی حاصل ہے۔
اس سے قبل بلوچ لبریشن آرمی اس نوعیت کے مربوط آپریشنز کرچکی ہے۔ گذشتہ سال بی ایل اے نے “آپریشن ھیروف” کے تحت بیک وقت بلوچستان کے چودہ اضلاع میں کاروائیاں کی جن میں موسیٰ خیل میں پاکستانی خفیہ اداروں کے “اہلکاروں” کو شناخت کے بعد ہلاک کرنا، قلات، مستونگ، نوشکی، پنجگور و دیگر اضلاع میں مرکزی شاہراہوں کا کنٹرول حاصل کرنا شامل تھا جبکہ اسی آپریشن کا مرکزی حملہ بیلہ میں کیا جہاں پاکستان فوج کے مرکزی کیمپ کو بی ایل اے مجید برگیڈ نے حملے کے بعد اپنے کنٹرول میں لیا۔
اسی نوعیت کے مربوط حملے بلوچ مسلح تنظیموں کے اتحاد بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) کی جانب سے بھی دیکھنے میں آئی ہے۔
بلوچستان میں مسلح تنظیموں کی بڑھتی ہوئی کاروائیوں نے یہ واضح کر دیا ہے کہ مسلح تنظیمیں نہ صرف میدان میں موجود ہیں بلکہ پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ منظم، مربوط اور جارحانہ حکمت عملی کے ساتھ سرگرم ہیں۔ ایک ہی وقت میں مختلف اضلاع میں حملے، ریاستی تنصیبات کو نشانہ بنانا، اور لیویز و فورسز کی چوکیاں اپنے قبضے میں لینا واضح کرتی ہے کہ مسلح تنظیموں کی کارروائی کی صلاحیت میں واضح اضافہ ہوا ہے۔
دوسری جانب، ان کارروائیوں کے جواب میں ریاستی اداروں کی جانب سے فوری اور مؤثر ردعمل کی عدم موجودگی، یا اس کا محدود دائرہ، زمینی سطح پر ان کے کنٹرول میں دراڑ کا عندیہ دیتا ہے۔
بعض علاقوں میں مسلح تنظیموں کی نقل و حرکت اور کارروائیاں بتاتی ہیں کہ اب وہ روایتی گوریلا حکمت عملی سے بڑھ کر علاقوں میں “اثر و رسوخ” قائم کرنے کی پوزیشن میں آ چکے ہیں۔
یہ صورتحال نہ صرف پاکستانی فورسز کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے بلکہ ریاستی رٹ کے تصور پر بھی سوالات کھڑے کر رہی ہے۔ بلوچستان کے بعض حصے ایسے بنتے جا رہے ہیں جہاں ریاست کی موجودگی کمزور اور مزاحمتی تنظیموں کی گرفت نمایاں ہو رہی ہے۔
اگر یہ رجحان جاری رہا، تو مستقبل قریب میں بلوچستان میں پاکستانی فورسز کا رٹ مکمل ختم ہوکر رہ جائے گا۔