نیشنل پارٹی کی بلوچ دشمنی – آصف بلوچ

89

نیشنل پارٹی کی بلوچ دشمنی

تحریر: آصف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کی سیاست ایک عرصے سے ریاستی مداخلت، جبری حاشیہ کشی اور مصنوعی سیاسی عمل کی گرفت میں ہے اس ماحول میں نیشنل پارٹی کو بطور “بلوچ قوم پرست جماعت” متعارف کروایا گیا مگر اس کا وجود، بیانیہ اور عملی کردار ایک الگ ہی داستان سناتا ہے۔ یہ جماعت نہ صرف حقیقی بلوچ قومی بیانیے کے برعکس کھڑی نظر آتی ہے بلکہ اسے روکنے اور کمزور کرنے کا باقاعدہ آلہ بن چکی ہے نیشنل پارٹی نے آج تک یہ واضح نہیں کیا کہ وہ کس “قوم” کی نمائندگی کرتی ہے؟ ان کے سیاسی منشور میں نہ تو حقیقی قومی خودمختاری کی بات ملتی ہے نہ نوآبادیاتی مداخلت کے خلاف مزاحمتی مؤقف، اس جماعت کی تشکیل اور ارتقاء کا بنیادی مقصد بلوچ قوم پرستی کے حقیقی دھارے کے سامنے بند باندھنا تھا اور اس میں وہ کامیاب بھی نظر آتی ہے۔ 1980 کی دہائی کے بعد سے اس جماعت نے “اینٹی سردار” بیانیے کے ذریعے بلوچ سماج میں طبقاتی تقسیم کو ہوا دی اور علاقائی و لسانی بنیادوں پر جھالاوان، مکران، براہوئی اور مکرانی کی تفریق کو ابھار کر بلوچ قومی وحدت، قومی تشکیل پر کاری ضرب لگائی۔

نیشنل پارٹی نے متوسط طبقے کے نام پر جو چادر اوڑھی ہے اس کے نیچے نہ صرف ریاستی پالیسیوں کی مکمل اطاعت ہے بلکہ پنجابی قبضہ گیروں کی اجارہ داری کے لئے میدان ہموار کرنے کی شعوری کاوش بھی موجود ہے۔ وہ حلقے جہاں بلوچ مزاحمتی سیاست مضبوط ہے جیسے پنجگور، کیچ، مستونگ، نال، خضدار آواران اور بارکھان وہاں نیشنل پارٹی کے منتخب نمائندے اور نامزد امیدوار براہ راست یا بالواسطہ طور پر ڈیتھ اسکواڈز کے قیام اور ان کی معاونت میں ملوث ہیں۔

بزنجو خاندان نے شفیق مینگل جیسے بدنام زمانہ بلوچ دشمن ریاستی آلہ کار کے ساتھ سیاسی و انتخابی اتحاد قائم کرکے یہ واضح کر دیا ہے کہ ان کے سیاسی مقاصد کس رخ پر ہیں۔ آواران اور پنجگور کے نمائندوں کے ریاستی اداروں اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے قریبی تعلقات اور بارکھان جیسے حساس علاقے میں ریاست کی پشت پناہی میں سیاست سب اسی ریاستی بیانیے کی توسیع ہے جس کے خلاف بلوچ مزاحمتی قوتیں صف آرا ہیں۔

نیشنل پارٹی کی ریاستی پالیسیوں سے ہم آہنگی کا ایک اور ثبوت ان کے حالیہ چینی سفارتی روابط ہیں، پارٹی صدر کا گورنر بلوچستان کے ہمراہ چین کا سرکاری دورہ اور اس سے قبل پارٹی کے سینئر نائب صدر اور صوبائی صدر کا بھی چین کا سرکاری دورہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ جماعت چین اور اسلام آباد کی مشترکہ بلوچ دشمن حکمتِ عملی بالخصوص سی پیک کے نام پر بلوچ سرزمین پر اجارہ داری کے منصوبے کی مکمل حمایت کر رہی ہے۔

سیاسیات اور سفارت کاری کی زبان میں اسے “collaborative clientelism” کہا جا سکتا ہے جہاں مقامی سیاسی قیادت ذاتی و گروہی مفادات کے بدلے قومی خودمختاری کی قیمت پر غیرملکی و ریاستی طاقتوں کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کرتی ہے۔

نیشنل پارٹی کی سیاست صرف اپنے سیاسی مفادات کے گرد گھومتی ہے۔ یہ جنگی منافع خور بھی ہے، سیاسی منافع خور بھی ہے اور کاروباری منافع خور بھی ہے۔ بلوچ مزاحمتی جدوجہد سے بھی یہ اپنے ذاتی و گروہی مفادات کو ریاست سے حاصل کر رہی ہے، بی وائی سی کی سیاسی جدوجہد کو اندرونِ خانہ کاؤنٹر کرکے بھی فنڈز اور دیگر مراعات حاصل کر رہی ہے اور بارڈر بندش اور “منرلز اینڈ مائنز بل” سے بھی اپنے ذاتی مفادات حاصل کر رہی ہے۔

حالیہ ریاستی جبر و استبداد، بلوچ یکجہتی کمیٹی کے خلاف ریاستی جبر، اور ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ و دیگر رہنماؤں کی تھری ایم پی او کے کالے قوانین کے تحت طویل غیرقانونی گرفتاری، جبری گمشدگیوں، مسخ شدہ لاشوں کے پھینکنے میں تیزی، اور سیاسی کارکنوں کے نام بڑے پیمانے پر فورتھ شیڈول میں ڈال کر بلیک میلنگ کا سلسلہ شدت سے جاری ہے ان تمام معاملات پر نیشنل پارٹی نہ صرف مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے بلکہ بعض اوقات بالواسطہ طور پر ریاستی بیانیے کو تقویت بھی دیتی ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، اور دیگر سیاسی و سماجی کارکنان کے خلاف حالیہ ریاستی جبر پر نیشنل پارٹی کی مکمل خاموشی ایک شرمناک مثال ہے کہ انسانی حقوق کی پامالی پر بھی یہ جماعت اپنے سیاسی مفادات کو ترجیح دیتی ہے اور حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ پارٹی قیادت نے لاہور ملاقات میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ وزارتِ اعلیٰ کے مطالبات بھی رکھے ہیں جو اس جماعت کی سیاسی بےحسی، موقع پرستی اور اصولوں سے انحراف کی تصدیق ہے۔

بلوچستان اس وقت ایک تاریخی دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایک طرف مزاحمتی تحریک اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے، دوسری طرف مفاداتی سیاست کرنے والے عناصر ریاستی جبر کو “ریاستی تعاون” میں بدل کر ذاتی فائدے سمیٹ رہے ہیں۔

اب وقت آ گیا ہے کہ بلوچ عوام ان نام نہاد قوم پرستوں کو ان کے اعمال کے آئینے میں دیکھیں سوال یہ نہیں کہ نیشنل پارٹی کیا کہتی ہے بلکہ یہ ہے کہ نیشنل پارٹی کیا کرتی ہے۔ کیا بلوچ قوم ایک بار پھر مفاداتی سیاست کے چنگل میں آ جائے گی؟
کیا مزاحمت کی لہر ان قوتوں کو بے نقاب کرنے میں کامیاب ہو گی؟
کیا قومی شعور ان “سیاسی آلہ کاروں” کی شناخت کرکے ان کا محاسبہ کر سکے گا؟ اور سب سے اہم: کیا ریاستی جبر کے خلاف ایک متحد سیاسی و عوامی بیانیہ ابھرے گا جو نیشنل پارٹی جیسے کرداروں کی سیاست کا مکمل بائیکاٹ کرے گا؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔