پارلیمانی قوم پرستی سیاست یا سودے بازی؟
تحریر: آصف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان کی پارلیمانی قوم پرست جماعتیں اس وقت نظریاتی زوال، فکری انجماد اور سیاسی بیگانگی کے ایسے گہرے بحران کا شکار ہیں جو نہ صرف ان کے داخلی ڈھانچے کو کھوکھلا کر چکا ہے بلکہ قومی سیاست کے تصور کو بھی ایک قابل فروخت شے میں تبدیل کر چکا ہے۔ ان جماعتوں کی سیاست اب کسی منظم فلسفیانہ یا سیاسی نظریہ کے تابع نہیں بلکہ محض وقتی مفادات، فرد پرستی اور اقتداری تمنا کی اسیر بن چکی ہے۔ نظریہ جو کسی بھی انقلابی یا قومی تحریک کی ریڑھ کی ہڈی ہوا کرتا ہے، ان جماعتوں میں اب صرف کاغذی طور پر باقی ہے۔ جیسا کہ انتونیو گرامشی نے کہا تھا “The crisis consists precisely in the fact that the old is dying and the new cannot be born. In this interregnum a great variety of morbid symptoms appear.” یہی کیفیت بلوچ پارلیمانی سیاست پر پوری طرح منطبق ہوتی ہے جہاں پرانا نظریاتی ڈھانچہ دم توڑ چکا ہے اور نیا کوئی بھی فکری افق جنم نہیں لے رہا ہے۔
ان پارٹیوں میں کیڈر سازی، کارکنوں کی نظریاتی تربیت اور تنظیمی استقامت کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہو رہی بلکہ ان کی سیاست وقتی جذباتیت، میڈیا کی سطحی نمائندگی اور شخصی وفاداریوں کے گرد گھومتی ہے۔ مارکسسٹ لینن ازم کے فکری تسلسل کو نظرانداز کرتے ہوئے ان جماعتوں نے خود کو محض انتخابی سائیکل کا ایک پَیندہ بنا دیا ہے۔ ولادیمیر لینن نے ایک مقام پر لکھا تھا “Without revolutionary theory there can be no revolutionary movement.” اور یہی فکری خلا آج کی بلوچ قوم پرست سیاست میں سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ ان جماعتوں کا نہ کوئی اصولی قومی پروگرام موجود ہے نہ ہی کوئی متبادل سماجی بیانیہ ایسے میں کارکنان کے لیے بھی کوئی فکری اتھاہ موجود نہیں جس سے وہ وابستگی اور نظریاتی پختگی حاصل کر سکیں۔
پارٹیوں کی مرکزی قیادت اور پالیسی ساز ادارے جیسے مرکزی کمیٹی، کونسل یا مجلس عاملہ اب ان افراد کے قبضے میں ہیں جو نہ سیاسی شعور رکھتے ہیں نہ نظریاتی تربیت کے کسی مرحلے سے گزرے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی قابلیت خوشامد، چاپلوسی اور عہدہ پرستی ہے۔ یہ افراد قابلیت کے بجائے تعلقات، خاندانی مراعات اور شخصی قربت کے بل پر ان اداروں پر براجمان ہیں۔ وہ لوگ جو کبھی محض نظریے کے لیے پارٹی کا حصہ بنے تھے، آج اجنبی ہو چکے ہیں۔ کیونکہ وہ پارٹی میں ذاتی مفاد کے بجائے اجتماعی مقصد کے تحت شامل ہوئے تھے۔ ان جماعتوں کے اندر نظریاتی کمٹمنٹ اب صرف منشور کی حد تک موجود ہے جبکہ عملی سطح پر ایک مکمل سیاسی بددیانتی، فکر سے انکار اور مقاصد سے انحراف کی فضا قائم ہے۔
جب ان جماعتوں کے سیاسی بیانیے کا تجزیہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ نہ ان کے پاس کوئی قومی پروگرام ہے نہ سماجی و اقتصادی اصلاحات کا کوئی واضح خاکہ۔ اس فکری ابتری کا نتیجہ یہ ہے کہ ان جماعتوں کا سارا سیاسی عمل محض ردعمل، باہمی الزام تراشی اور بازاری زبان کے استعمال تک محدود ہو چکا ہے۔ کارکنان اندھی تقلید کا شکار ہیں جبکہ قیادت کی زبان و بیان سے زیادہ غیر تربیت یافتہ اور غیر مہذب کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ سیاسی مکالمہ جو کسی بھی سیاسی جماعت کی اساس ہوتا ہے یہاں غائب ہے۔ اور جیسا کہ ژاں پال سارتر نے کہا تھا “When the rich make war, it’s the poor who die.” یہی اصول بلوچستان میں سیاسی تناظر پر بھی صادق آتا ہے کہ جب قائدین مراعات اور مفادات کے لیے باہم برسرپیکار ہوتے ہیں تو نقصان صرف کارکنان، عوام اور نظریے کو اٹھانا پڑتا ہے۔
بلوچستان کی پارلیمانی قوم پرست سیاست کا مطمع نظر اب نظریاتی سیاست کی بیج بونی نہیں بلکہ انتخابی عمل میں عارضی شمولیت اور اس کے بعد حاصل ہونے والی مراعات کا حصول ہے۔ انتخابات کے بعد جو جماعتیں اقتدار میں آتی ہیں وہ فوری طور پر حکومتی خوشنودی کے لیے کوشاں ہو جاتی ہیں اور جو ناکام رہتی ہیں وہ اگلے الیکشن تک سیاسی منظرنامے سے غائب ہو جاتی ہیں۔ اس تمام عمل میں ریاست کے جبر، جیسے جبری گمشدگیاں، نسل کشی، نوجوانوں کی ٹارگٹ کلنگ، تعلیمی اداروں کی بندش اور وسائل کی لوٹ مار جیسے معاملات پر مکمل خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔
آج بلوچستان میں حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ بلوچ خواتین ریاستی نشانے پر ہیں۔ ان حالات میں وہ جماعت، جو خود کو میر غوث بخش بزنجو کے سیاسی فکر کی وارث قرار دیتی ہے، متوسط طبقے کے نعرے کے ذریعے قابض قوتوں کے ساتھ مل کر بلوچ قوم کے استحصال اور ریاستی جبر میں مکمل معاون کا کردار ادا کر رہی ہے۔
یہ جماعت نہ صرف نال اور خضدار، بلکہ ساراوان اور مکران میں بھی ریاستی ڈیتھ اسکواڈز کے ساتھ سیاسی اتحاد قائم کیے ہوئے ہے۔ اس کے علاوہ موجودہ بلوچ دشمن سرفراز بگٹی حکومت کو بھی بھرپور مدد فراہم کر رہی ہے۔
جو لوگ سردار عطاء اللہ مینگل کے فکری و سیاسی جانشین ہونے کے دعوے دار ہیں، وہ صرف اُن کا نام استعمال کر کے سیاسی تجارت کر رہے ہیں۔ ان کے اقوال و افکار کو محض سٹیج کی تقاریر اور انتخابی نعروں تک محدود کر دیا گیا ہے۔ ان کے حقیقی فکری و نظریاتی رفقاء، جنہوں نے عوامی شعور کو بیدار کرنے میں اپنی زندگیاں صرف کیں، مکمل طور پر حاشیے پر دھکیل دیے گئے ہیں۔
اسی طرح نواب اکبر خان بگٹی اور نواب خیر بخش مری کے بلوچستان میں موجود فرزندان و وارثین بھی ان کے نظریات اور جدوجہد سے مکمل روگردانی اختیار کر چکے ہیں، اور ریاستی اداروں و حکومتوں کے ہمنوا بن چکے ہیں۔ وہ خود اپنی نجی محفلوں میں تسلیم کرتے ہیں کہ “ہم اپنے بزرگوں کے سیاسی نظریات کو افورڈ نہیں کر سکتے۔”
ان جماعتوں کی مراعات یافتہ سیاست کا چہرہ مکمل طور پر بے نقاب ہو جاتا ہے، اور یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ یہ پارٹیاں اب بلوچ قومی تحریک کا حصہ نہیں رہیں بلکہ اس تحریک کے استحصال کا ذریعہ بن چکی ہیں۔
جب بھی بلوچستان میں ریاست جارحیت اور جبر کا آغاز کرتی ہے، یہ پارلیمانی سیاست سے وابستہ پارٹیاں اور شخصیات نہ صرف خاموشی اختیار کرتی ہیں، بلکہ ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کر کے محاذ کھولتی ہیں تاکہ بلوچ قوم کے جذبات کو منتشر کیا جا سکے۔
موجودہ سیاسی حالات میں ان جماعتوں کا کردار نہ صرف غیرفعال بلکہ موقع پرستانہ بھی ہے۔ انور ساجدی کا یہ تجزیہ بالکل بجا ہے کہ یہ جماعتیں اب سیاسی پارٹیاں نہیں بلکہ این جی اوز کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ ان کا مقصد اب قومی سیاست نہیں بلکہ حکومتی فنڈز اور ترقیاتی منصوبوں میں شرکت حاصل کرنا ہے۔ گوادر میں زمینوں کی بندر بانٹ ہو، سمندری حیاتیات کی تباہی، سی پیک کی آڑ میں وسائل کی سوداگری، ریکوڈک اور سیندک کے معاہدے یا حالیہ مائنز اور منرلز کی لوٹ مار ان تمام منصوبوں میں یہی پارلیمانی قوم پرست جماعتیں شریک رہی ہیں۔
یہ جماعتیں نے ان پراجیکٹس کی مخالفت اس لیے نہیں کررہے کہ وہ بلوچ قومی مفادات کے خلاف تھے بلکہ اس لیے مخالفت کرتے ہیں کہ انہیں ان میں حصہ نہیں ملا یہ مخالفت مراعات سے محرومی کی شکایت ہے، قومی اصولوں کی پاسداری نہیں۔ جمیعت علماء اسلام کے بلوچ اور پشتون نمائندے بھی انہی سودوں میں برابر کے شریک ہیں۔ اسمبلیوں میں بلز کی حمایت اور پھر ان ہی بلز کو عدالتوں میں چیلنج کرکے دوہرا فائدہ حاصل کرنے کی جو سیاست بلوچستان میں پروان چڑھ رہی ہے وہ فکری منافقت کی بدترین شکل ہے۔
بلوچستان ایک لاوارث خطہ بن چکا ہے جہاں ہر گروہ چاہے وہ قوم پرستی کی آڑ میں ہو، مذہب پرستی کے لبادے میں یا قومی تحریک کی مخالفت کے نام پر اس کے وسائل، زمین اور عوام کو لوٹ رہا ہے۔ جیسا کہ فرینز فینن نے نوآبادیاتی ریاستوں کے بارے میں لکھا تھا “The ruling class has nothing to offer but slogans. It hides behind nationalism while it deals in exploitation.” بلوچ سیاست بھی اسی طرز کی نوآبادیاتی سیاست کا شکار ہے جہاں نعرے قومی ہیں لیکن سودے ذاتی اور ریاستی مفادات کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔