بلوچستان میں ریاستی نسل کشی اور میڈیا کا کردار – عابد بلوچ

83

بلوچستان میں ریاستی نسل کشی اور میڈیا کا کردار

تحریر: عابد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان طویل عرصے سے ریاستی نسل کشی کے سنگین مسئلے سے دوچار ہے، جس میں حکومتی ادارے، پارلیمنٹ، اور ریاست کے منتخب نمائندے سب شامل ہیں۔ اس منظم نسل کشی کا مقصد بلوچ قوم کو ہر لحاظ سے کمزور کرنا اور انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو نہ صرف اندرونی طور پر بلوچستان کے لوگوں کو متاثر کر رہا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی انسانی حقوق کی تنظیموں کے لیے تشویش کا باعث ہے۔

آج کے ڈیجیٹل دور میں جہاں سوشل میڈیا دنیا بھر میں معلومات کی ترسیل کا ایک اہم ذریعہ ہے، بلوچستان میں بلوچوں کی آواز کو مسلسل دبایا جا رہا ہے۔ پاکستانی حکومت نے بلوچوں کے حقوق اور ان کے خلاف ہونے والے مظالم کو میڈیا پر آنے سے روکنے کے لیے مختلف حربے اپنائے ہیں۔ مین اسٹریم میڈیا ہو، اخبارات ہوں یا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، بلوچوں کی جدوجہد کو ہمیشہ پس منظر میں رکھا گیا ہے۔ پاکستانی میڈیا میں بلوچوں سے متعلق حقیقی خبروں کو شاذ و نادر ہی جگہ ملتی ہے۔

ماضی میں، بلوچستان میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے اخبارات میں سے ایک “آساپ” تھا، جس کے دفتر کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ صحافیوں کو ہراساں کیا گیا، ان کی تذلیل کی گئی، اور اشتہارات پر پابندی عائد کر دی گئی، جس کے نتیجے میں یہ اخبار بند ہو گیا۔ یہ مثال ریاستی دباؤ کی ایک واضح تصویر پیش کرتی ہے جس کا سامنا بلوچستان میں آزاد صحافت کو کرنا پڑا ہے۔

آج بھی سوشل میڈیا کے دور میں بلوچوں کی آواز کو دبانے کے لیے پاکستان نے تقریباً 300 ملین ڈالر کی لاگت سے ایک “فائر وال” نصب کی ہے تاکہ بلوچ عوام سوشل میڈیا پر اپنی آواز بلند نہ کر سکیں۔ اگرچہ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور بین الاقوامی ادارے بلوچوں کے حق میں آواز اٹھاتے ہیں، لیکن پاکستان کی سخت پابندیوں کی وجہ سے لوگ VPN جیسے غیر محفوظ طریقوں کا سہارا لینے پر مجبور ہیں، جو اکثر ناکام ہو جاتے ہیں۔ یہ پابندیاں بلوچوں کو دنیا تک اپنی بات پہنچانے سے روک رہی ہیں۔

بلوچستان میں کچھ ایسے اخبارات اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بھی موجود ہیں جو بلوچوں کی اصل آواز کو دبانے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ “گدروشیا پوائنٹ”، “وائس آف مکران”، “وائس آف تربت” جیسے پلیٹ فارمز زیادہ تر ریاستی اداروں کے بیانیے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ یہ پلیٹ فارمز حکومتی پسندیدہ منتخب نمائندوں کی حمایت کرتے ہیں اور بلوچوں کی حقیقی مسائل، جیسے کہ جبری گمشدگیاں، مسلح افواج کی دہشت گردی، اور عام شہریوں کے قتل عام کو اجاگر کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہیں۔ ان پلیٹ فارمز کی اکثریت یا تو مالی فوائد کے لیے کام کرتی ہے یا انہیں حکومتی سرپرستی حاصل ہے تاکہ بلوچوں کی حقیقی آواز کو دبایا جا سکے۔

بلوچستان میں ریاستی نسل کشی اور میڈیا کی خاموشی ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس کے انسانی حقوق اور جمہوری اقدار پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو مزید مؤثر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔