ذیشان ظہیر کا سوال باقی ہے – لطیف بلوچ

51

ذیشان ظہیر کا سوال باقی ہے

تحریر: لطیف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ذیشان ظہیر کا قتل محض ایک فرد کا قتل نہیں تھا یہ اس سچ کو خاموش کرنے کی کوشش تھی جو دہائیوں سے جبری گمشدگیوں کے خلاف گونج رہا ہے وہ سچ جو زنجیروں کو توڑنے پر تُلا ہوا تھا۔ ذیشان کوئی ہتھیار بردار نہ تھا وہ ایک بیٹے کی صورت میں سوال تھا ایسا سوال جس کے لبوں پر صرف اپنے باپ کی بازیابی کی صدا نہیں بلکہ ہر اس لاپتہ فرد کے لئے آواز تھی جو ریاستی جبر کا شکار ہوا ہے۔

ذیشان ایک ایسا نوجوان تھا جس کی آنکھوں میں صرف خواب نہ تھے بلکہ ہر اشک میں ایک عہد چھپا تھا اس کی زندگی احتجاج، دھرنوں، اور لانگ مارچ کے دھول بھرے راستوں میں گزری اسے بارہا ریاستی کارندوں نے تشدد کا نشانہ بنایا مگر ہر زخم اس کے جذبے کو اور تیز کرتا گیا وہ لڑتا رہا، کیونکہ ماں کی آنکھوں کا آنسو اس کی غیرت کا وضو تھا، وہ بڑھتا رہا کیونکہ ادیبہ اور زویا کی سسکیاں اس کے دل میں تحلیل ہو چکی تھیں۔

جب 13 اپریل 2015 کو ذیشان کے والد ظہیر بلوچ کو پنجگور سے کراچی جاتے ہوئے حب چوکی سے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا، اس وقت ذیشان صرف دس سال کا بچہ تھا۔ زویا کو ابھی دنیا میں آئے چالیس دن ہی ہوئے تھے اس دن ایک بچپن کا سورج بجھ گیا، اور اس کی راکھ سے ایک احتجاجی نوجوان نے جنم لیا وہ جو پچھلے گیارہ برس سے اپنے والد کی بازیابی کے لیے سڑکوں پر سراپا احتجاج بنا رہا۔ لیکن افسوس اس کی فریاد سننے کے بجائے، اس کی آواز کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا گیا۔

29 جون 2025 کی شام پنجگور کے فٹبال گراؤنڈ چوک سے ذیشان ظہیر کو ماورائے قانون اغواء کر دیا گیا۔ مغرب کے وقت ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کے کارندے انہیں اغوا کر کے لے گئے، رات بھر اذیت دی اور 30 جون کو صبح گولیوں سے چھلنی لاش سڑک کنارے پھینک دی۔ ذیشان ایک پُرامن پُرعزم بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کارکن تھے جو اپنے والد 2015 سے جبری لاپتہ ظہیر بلوچ کی بازیابی کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔

ان کی جدوجہد صرف اپنے والد تک محدود نہ تھی وہ ہر لاپتہ فرد کے لیے آواز بلند کرتے ہر احتجاج میں شامل ہوتے، ہر ریلی کا حصہ بنتے۔ ماں کے آنسو دیکھتے ہوئے وہ بڑا ہوا تھا اس لیے وہ ہر ماں کے درد کو سمجھتا تھا ہر بہن کے غم کو جانتا تھا، ہر بیٹی کی اذیت سے آگاہ تھا۔ اسی لیے اس جدوجہد کا حصہ بنا اور کبھی پیچھے نہ ہٹا۔

2023 میں تربت میں بالاچ مولا بخش کی شہادت پر بلوچ یکجہتی کمیٹی نے شہید فدا چوک پر دھرنا دیا پھر تربت سے کوئٹہ اور کوئٹہ سے اسلام آباد تک لانگ مارچ شروع ہوا۔ ذیشان اپنی والدہ، ادیبہ، زویا اور دیگر اہلِ خانہ کے ساتھ قافلے میں شریک ہوا سوراب میں ریاستی کارندوں نے ذیشان کو اٹھایا، تشدد کیا اور زخمی حالت میں چھوڑ گئے مگر ذیشان نہ رکا، وہ قلات میں لانگ مارچ کا حصہ بنا۔

اسلام آباد میں لانگ مارچ کے شرکا پر جب فورسز نے تشدد کیا، ذیشان پھر نشانہ بنے۔ وہ نیم بے ہوشی کی حالت میں کئی گھنٹے زمین پر پڑے رہے، مگر ہوش آتے ہی دوبارہ کمر بستہ ہو گئے۔ باپ کی جدائی کا درد اور ماں کے آنسوؤں نے اسے اس قدر مضبوط کر دیا تھا کہ جسمانی اذیتیں اس کا کچھ نہ بگاڑ سکیں۔ اس کے سوالوں کے جواب نہ تھے ان ریاستی کارندوں کے پاس۔ ان کے اندر کا خوف اس سچ سے تھا جو ذیشان کی صورت میں بول رہا تھا۔ ادیبہ اور زویا کی چیخوں سے لرزنے والے ان بزدلوں نے آخرکار ذیشان کو خاموش کرنے کا فیصلہ کر لیا رات کو انہیں اغوا کیا گیا اور صبح ان کی خون میں لت پت لاش ماں کے آنگن میں پھینک دی گئی لیکن سوال یہ ہے ذیشان کو قتل کیا گیا، کیا سچ کو بھی مارا جا سکتا ہے؟ کیا سچ کی تلاش کرنے والے خاموش ہو جائیں گے؟ کیا وہ بیٹیاں جن کے باپ لاپتہ ہیں، ڈر جائیں گی؟

نہیں، ہرگز نہیں۔

یہ لاشیں، یہ چیخیں، یہ آنسو سب انہیں کندن بنا رہے ہیں۔ ظلم کی عمر طویل نہیں ہوتی تمہارے ہاتھوں کی لرزش بتا رہی ہے کہ تم ہار چکے ہو۔ تم ذیشان جیسے سوالوں سے لرزتے ہو، زویا اور ادیبہ جیسی بیٹیوں سے خوفزدہ ہو اور اس لیے قتل کر رہے ہو۔ مگر تمہاری گولیاں نظریات کو مار نہیں سکتیں۔ 30 جون کے صبح ایک فرد کی شہادت نہیں تھی وہ انسانیت کے ضمیر کا قتل تھا مگر سچ دفن نہیں ہوتا وہ چیخ بن کر فضا میں گونجتا ہے وہ آنسو بن کر پتھروں کو پگھلاتا ہے اور خون بن کر زمین سے صداقت کے نئے پودے اگاتا ہے۔ ذیشان مر نہیں گیا وہ ہر اس بیٹے میں زندہ ہے جو ماں کے آنسو سمجھتا ہے ہر اس بیٹی میں زندہ ہے جو جبری لاپتہ باپ کے لئے انصاف مانگتی ہے۔

ادیبہ اور زویا کی چیخیں ایوانوں میں گونجیں گی ان معصوم آنکھوں کے آنسو تمہارے غرور کو پاش پاش کر دیں گے۔ ذیشان ایک سوال تھا اور سوال قتل نہیں ہوتے ظلم مٹ جاتا ہے، سچ باقی رہتا ہے۔

ذیشان کو گولیوں سے چھلنی کیا گیا مگر ان کا سوال آج بھی زندہ ہے۔ سچ کی فطرت یہی ہے کہ وہ دفن نہیں ہوتا وہ عہد بن کر نسلوں کے دل میں اترتا ہے یہ ظلم صرف ایک فرد کا نہیں رہا یہ تاریخ کی پیشانی پر لکھی وہ سیاہی ہے جو ہر پڑھنے والے کو جھنجھوڑتی ہے۔ سچ بولنے والے تھکتے نہیں، پیچھے نہیں ہٹتے، ذیشان کے لہو سے لکھی گئی یہ داستاں آنے والی نسلوں کی مشعل بنے گی تم جتنے ذیشان مارو گے، اتنے سچ پیدا ہوں گے یہ خون صرف خون نہیں یہ نوشتۂ حق ہے جو فضاؤں پر نقش ہو چکا ہے اور ذیشان کا سوال باقی ہے کہ میرا باپ کہاں ہے؟

ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔