روس نے اسلامی امارت افغانستان کو سرکاری طور پر تسلیم کرلیا

104

افغانستان کے دارلحکومت کابل میں آج ایک اہم سفارتی پیش رفت میں روس نے باضابطہ طور پر طالبان کی زیر قیادت اسلامی امارت افغانستان کو تسلیم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔

روسی سفیر برائے افغانستان، دمتری ژرینوف نے کابل میں افغان وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی سے ملاقات کے دوران یہ اعلان کیا جس کی تصدیق طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک بیان کے ذریعے کی ہے۔

ترجمان کے مطابق روسی سفیر نے افغان قیادت کو آگاہ کیا کہ ماسکو نے طالبان حکومت کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے اسلامی امارت افغانستان کو باضابطہ طور پر تسلیم کرلیا ہے۔

واضح رہے کہ افغانستان سے امریکی فوجی انخلاء کے بعد طالبان نے اشرف غنی حکومت کو ختم کرکے اگست 2021 میں کابل پر قبضہ کرنے کے بعد اسلامی امارت کا اعلان کیا تھا لیکن اس تمام دورانیہ میں انھیں کسی ملک میں سرکاری سطح پر قبول نہیں کیا گیا تھا اور اقوام متحدہ نے بھی طالبان حکومت تسلیم نہیں کیا۔

طالبان کا کابل پر قبضے کے دوران ایران، چین سمیت کچھ ممالک نے عملی سطح پر تعلقات استوار کیے ہیں تاہم روس وہ پہلا بڑا ملک ہے جس نے باضابطہ طور پر طالبان کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق روس کی جانب سے اسلامی امارت کی باضابطہ منظوری طالبان کے لیے ایک بڑی سفارتی کامیابی ہے، جس کے کئی اہم پہلو ہیں اگر مزید ممالک روس کے نقش قدم پر چلتے ہیں، تو طالبان حکومت کو اقوام متحدہ میں افغانستان کی نشست حاصل کرنے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے جس پر فی الحال سابقہ حکومت کے نمائندے قائم ہیں۔

انکا کہنا ہے روس کے ساتھ رسمی تعلقات کھلنے سے طالبان حکومت کو اقتصادی امداد، سرمایہ کاری اور بین الاقوامی تجارت میں سہولت حاصل ہو سکتی ہے اور روس کے اس اقدام سے وسطی ایشیا اور خطے کے دیگر ممالک بھی طالبان حکومت کو سنجیدہ اور ناگزیر حقیقت کے طور پر دیکھنے لگیں گے خاص طور پر وہ ممالک جو افغانستان میں سیکورٹی خدشات رکھتے ہیں۔

روسی حکومت کا یہ اعلان طالبان کے لیے ایک بڑی سفارتی کامیابی ہے، جو عالمی تنہائی سے نکلنے کی کوششوں کا حصہ ہے اگر یہ سلسلہ دیگر ممالک تک پھیلتا ہے، تو افغانستان کی عالمی پوزیشن میں ایک نمایاں تبدیلی آ سکتی ہے مگر یہ سب کچھ اس بات پر بھی منحصر ہے کہ طالبان اپنی داخلی پالیسیوں میں کتنی نرمی دکھاتے ہیں خصوصاً خواتین، تعلیم، اقلیتوں اور سیاسی شراکت داری کے معاملات میں۔