لاپتہ عبدالغنی بلوچ کی اہلخانہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ عبدالغنی بلوچ کی جبری گمشدگی کو ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، مگر تاحال نہ انہیں عدالت میں پیش کیا گیا ہے اور نہ ہی ان کے حوالے سے کوئی اطلاع فراہم کی گئی ہے۔ ان کی گرفتاری کو تسلیم نہ کرنا اور مسلسل خاموشی اختیار کرنا ریاستی اداروں کی جانب سے آئینِ پاکستان اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ عبدالغنی بلوچ کوئی عام فرد نہیں بلکہ ایک اسکالر، مصنف، پبلشر اور سیاسی کارکن ہیں، جنہوں نے ہمیشہ دلیل، زبان اور شعور کے ذریعے اپنی بات کہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اہلِ خانہ عبدالغنی بلوچ، اس تمام عرصے میں مسلسل پُرامن اور آئینی دائرے میں رہ کر ملکی آئیں کے مطابق اپنا حق مانگ رہے ہیں ۔ ہم نے غنی بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف تمام فورم کا استعمال کیا جس میں پولیس تھانے میں ایف آئی آر، عدالت میں پیٹیشن جمع کرانے، ضلعی انتظامیہ کو درخواست سمیت پرامن طریقے سے پریس کانفرنسز ، سوشل میڈیا کمپین ، احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں کا انعقاد کیا۔
انہوں نے کہا کہ 16 جون کو پہلے احتجاج کے ساتھ ہی ضلعی انتظامیہ کے دفتر میں درخواست جمع کرایا گیا، جس میں ڈپٹی کمینشر نے یقین دہانی کرائی کہ غنی بلوچ کے حوالے سے خضدار انتظامیہ سے رابطہ کر کےمعلومات فراہم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ مگر اس کے بعد اہل خانہ سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا اور آخرکار ریاستی بےحسی کے خلاف ہم اہلخانہ کی جانب سےنوشکی میں مرکزی شاہراہ کو سرمل کے مقام پہ بند کر کے دھرنا دیا۔ اس دھرنے میں خواتین، بزرگ، نوجوان، طلبہ، انسانی حقوق کے کارکن اور عام شہریوں نے شرکت کی اور یہ ثابت کر دیا کہ غنی بلوچ کی گمشدگی صرف ایک خاندان کا دکھ نہیں بلکہ پورے معاشرے کی اجتماعی اذیت ہے۔
دھرنے کے دوران اسسٹنٹ کمشنر نوشکی نے ایک دفعہ پھر اہلِ خانہ سے ملاقات کر کے روڈ بندش ختم کرنے کی درخواست کی ، ہم نےایک معاہدے کے تحت دھرنا ختم کر دیا،جبکہ اس کے اگلے روز ضلعی انتظامیہ کے ساتھ دوبارہ باضابطہ ملاقات ہوئی، جس میں حکام نے یقین دلایا کہ معاملے میں مثبت پیش رفت ہو رہی ہے،دو دنوں میں جے آئی ٹی میں اس کیس کی شنوائی ہوگی جبکہ اسی دوران خضدار انتظامیہ، متعلقہ حکام اور محکمہ داخلہ سے باضابطہ رابطہ کر کے جلد ہی اہلِ خانہ کو غنی بلوچ کی موجودگی اور صورتحال سے آگاہ کیا جائے گا، مگر تاحال نوشکی کے ضلعی انتظامیہ سمیت کسی ادارے کی جانب سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اس معاملے میں تاخیر، ٹال مٹول، اور خاموشی مزید اذیت ناک ہے۔ ہم کسی غیرقانونی مطالبے کے ساتھ میدان میں نہیں اترے، ہمارا مطالبہ صرف اتنا ہے کہ اگر عبدالغنی بلوچ پر کوئی الزام ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے، ورنہ فوری طور پر رہا کیا جائے۔ ہم ریاستی اداروں، حکومت، عدلیہ، اور انسانی حقوق کے تمام اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں انسانی، اخلاقی اور آئینی بنیادوں پر فوری کردار ادا کریں۔