قاضی – خاموشی کا شور، قوم کا سپاہی
تحریر: نیاز زہری
دی بلوچستان پوسٹ
کچھ لوگ دنیا میں ایسے آتے ہیں جو شور نہیں کرتے، لیکن ان کی خاموشی تاریخ کا رخ موڑ دیتی ہے۔ باسط زہری عرف “قاضی” انہی میں سے ایک تھے۔ ایک ایسا نام جو زبان پر کم، مگر دلوں میں ہمیشہ رہے گا۔ قاضی کا تعلق ایک باوقار خاندان سے تھا، لیکن انہوں نے آسائشوں کو چھوڑ کر اپنی قوم کی آزادی کے لیے وہ راستہ چُنا جو کٹھن تھا، مگر باوقار۔
قاضی کی شخصیت میں ایک خاص سکون تھا۔ وہ بولتے کم تھے، عمل زیادہ کرتے تھے۔ انہوں نے کبھی شہرت یا ناموری کی خواہش نہیں کی، نہ کبھی اپنے دکھوں کا تذکرہ کیا، نہ شکایت کی، نہ رحم کی درخواست۔ ان کا کہنا تھا:
“یہ جدوجہد ہے، اور قربانیاں اس کا حصہ ہیں۔”
بلوچستان کے مشہور تعلیمی ادارے بی آر سی خضدار سے فارغ التحصیل، قاضی ایک پڑھا لکھا، باشعور اور مستقبل بین رہنما تھے۔ ان کے خیالات، ان کی حکمت عملی، اور ان کی تنظیمی صلاحیتیں ایک پوری نسل کے لیے مشعل راہ بن گئیں۔ وہ بلوچ قومی جدوجہد کے ان چند گوریلا لیڈروں میں شامل تھے جنہوں نے جدید دور کی جنگی حکمت عملیوں کو بلوچ تحریک کے لیے نہ صرف اپنایا بلکہ کامیابی سے رائج بھی کیا۔
قاضی کی زندگی قربانیوں سے بھری ہوئی تھی۔ ان کے دو بھائی شہید ہوئے، ان کے والد کو سفاکی سے قتل کیا گیا۔ لیکن قاضی نے کبھی ان ذاتی صدموں کو قومی مقصد پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ وہ ہر درد کو ایک نئے حوصلے میں ڈھالتے گئے۔ ان کے چہرے پر کبھی تھکن یا مایوسی کے آثار نہیں دیکھے گئے، حالانکہ وہ شدید بیماریوں کا بھی سامنا کر رہے تھے۔ مگر وہ ہر وقت بلوچستان کے کونے کونے میں لوگوں کو متحرک کرتے، آگاہی دیتے اور امید بانٹتے رہے۔
قاضی کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو ان کی خاموش قیادت تھی۔ وہ چیخنے یا نعرے لگانے والے رہنما نہیں تھے، بلکہ وہ عمل، صبر، اور تدبر کے ذریعے رہنمائی کرنے والے قائد تھے۔ ان کے فیصلے ہمیشہ وقت اور حالات سے آگے ہوتے تھے۔ وہ اپنے ساتھیوں کی حوصلہ افزائی خاموشی سے کرتے، ان کی بات سنتے، اور ہر شخص کو یہ احساس دلاتے کہ وہ اہم ہے۔ ان کی قیادت میں کوئی خوف نہیں تھا، صرف یقین تھا — یقین آزادی پر، یقین جدوجہد پر، اور یقین اس بات پر کہ قربانیاں رائیگاں نہیں جاتیں۔ قاضی نے بلوچ نوجوانوں کو صرف ہتھیار نہیں، نظریہ دیا۔ ان کی قیادت میں مزاحمت ایک مقصد بن گئی، ایک سوچ، ایک تحریک — جس کا مرکز نہ قاضی کی ذات تھی، نہ شہرت، بلکہ صرف اور صرف بلوچ قوم کی آزادی۔
میں نے انہیں ایک ہمدرد، ایک ساتھی، اور ایک عظیم لیڈر کے طور پر جانا۔ ان کی شفقت، ان کی دور اندیشی، اور ان کی خاموشی میں چھپی ہوئی گرج، سب کچھ دل کو چھو لینے والا تھا۔ ان کی وفات بلوچ قوم کے لیے ایک ایسا خلا چھوڑ گئی ہے جسے پُر کرنا مشکل ہے۔ مگر مجھے یقین ہے کہ انہوں نے اپنے علم، فکر اور جذبے سے اپنے جیسا متبادل ضرور تیار کیا ہوگا۔ ان کا نظریہ، ان کا خواب، ان کی جدوجہد جاری رہے گی۔
قاضی جیسے لوگ قوموں کی قسمت بدلنے آتے ہیں۔ وہ نہ صرف اپنے وطن کے لیے امید بن جاتے ہیں بلکہ دنیا بھر میں قابض قوتوں کے خلاف برسر پیکار اقوام کے لیے بھی ایک تحریک، ایک مثال بن جاتے ہیں۔ قاضی اب ہمارے درمیان نہیں، مگر ان کا پیغام، ان کی فکر اور ان کا کردار ہمیشہ زندہ رہے گا۔
بلوچ قوم خوش نصیب ہے کہ اس نے قاضی جیسا بیٹا پیدا کیا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔