قاضی ایک عہد کا اختتام – آصف بلوچ

182

قاضی ایک عہد کا اختتام

تحریر: آصف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جب کوئی پہاڑ خاموش ہو جائے تو فضا میں ایک اجنبیت سی بھر جاتی ہے۔ جب کوئی ندی سوکھ جائے تو زمین کے زخم چیخ اٹھتے ہیں اور جب کوئی مزاحمت کار اپنے لہو کی لکیریں وقت کی پیشانی پر چھوڑ کر چلا جائے تو ساتھیوں کے لئے ایک تکلیف دہ مرحلہ ہوتا۔ آج ہم ایک ایسے ہی لمحے کے روبرو ہیں ایک بلوچ مزاحمت کار کی موت جو صرف ایک انسان کی موت نہیں بلکہ ایک عہد، ایک خواب، اور ایک مسلسل جدوجہد کے باب کا اختتام ہے۔

وہ جوان جس نے اپنے بچپن کے کھلونوں کے بجائے بندوق تھامی جس نے ماں کی گود کے بجائے پہاڑوں کی پتھریلی چھاتی پر پناہ لی جس نے نیند کی بجائے نگہبانی اور امنگوں کی بجائے آزادی کا نعرہ چُنا وہ اب خاموش ہے۔ اُس کی آنکھیں جو کبھی افق کو چیر کر سورج کو چھو لینے کا عزم رکھتی تھیں اب مٹی کی آغوش میں ہمیشہ کے لیے بند ہو چکی ہیں لیکن وہ مٹی اب عام مٹی نہیں رہی وہ مقدس ہو چکی ہے، وہ گواہ ہے ایک ایسے خواب کی جو گولیوں سے چھلنی ہو کر بھی دفن نہیں ہوتا۔ بلوچ مزاحمت کوئی اچانک ابھرنے والی لہر نہیں تھی یہ اُس زخم کی صورت ہے جو دہائیوں سے رستا آیا ہے۔ ایک ایسا زخم جو نہ صرف خون بہاتا ہے بلکہ شعور، عزم اور بیداری بھی جنم دیتا ہے۔ ہر نسل میں کوئی نہ کوئی اُسے سینے سے لگاتا رہا، لہو چھڑکتا رہا اور پھر اسی میں تحلیل ہو گیا۔ یہ مزاحمتکار بھی اُسی قافلے کا راہرو تھا نہ نام کا محتاج، نہ تمغوں کا خواہاں اُس کی پہچان اُس کا یقین تھا اُس کی آواز اُس کا ہتھیار اور اُس کی تنہائی اُس کی جماعت۔

جب وہ گرا تو شاموز نے اپنا رنگ کھو دیا، پرندوں نے پر سمیٹ لیے اور ہوا میں ماتم کی سُرگوشیاں بکھر گئیں یوں لگا جیسے وقت خود تھم گیا ہو اور تاریخ نے ایک لمحے کے لیے سانس روک لی ہو۔ اُس کی شہادت نے صرف ایک جسم کو خاموش نہیں کیا بلکہ ایک صدائے مزاحمت کو امر کر دیا۔

مگر سوال یہ ہے کیا وہ واقعی مر گیا؟ یا اُس کی سانسیں اب پتھروں میں، ندیوں کے بہاؤ میں اور جہد کاروں کی آنکھوں میں نئی روشنی بن کر زندہ ہیں؟ مزاحمت کار کبھی مکمل مرتا نہیں وہ ایک علامت بن جاتا ہے ایک عہد کی علامت جسے نہ توپ دبا سکتی ہے، نہ وقت مٹا سکتا ہے وہ مزاحمت جو اُس نے شروع کی اب فضا کی گونج ہے، ہوا کی سرگوشی ہے اور ہر باشعور بلوچ کے دل کی دھڑکن ہے۔

آج اگرچہ ہم اُس کے جسم کو دفناتے ہیں لیکن اُس کی سوچ، اُس کی للکار، اُس کا خواب وہ زندہ ہے اور جب تک بلوچ سرزمین پر ایک بھی باشعور فرد زندہ ہے، اُس کی موت نہیں ہو سکتی۔ شہید کی موت محض ایک واقعہ نہیں، ایک گواہی ہوتی ہے کہ ہم نے جھکنے سے انکار کیا تھا اور ہم آج بھی جھکنے کو تیار نہیں۔

یہ ایک اختتام ضرور ہے مگر شاید ایک نئے باب کا آغاز بھی کیونکہ جہاں خواب دفن کیے جاتے ہیں، وہاں بغاوتیں جنم لیتی ہیں اور بلوچ سرزمین، بغاوتوں کی ماں ہے وہ سرزمین جہاں ماؤں نے اپنے بیٹوں کو گود میں پالنے کے بجائے پہاڑوں کو سونپ دیا، وہ زمین جہاں خون کی ہر بوند ایک نئی قسم کی زندگی کو جنم دیتی ہے، وہ زندگی جو غلامی کے خلاف ایک مسلسل انکار ہے۔

قاضی نے زہری میں جنم لیا، زہری جو بلوچ مزاحمت کی ایک قلعہ ہے، جہاں کی ہواؤں میں شہیدوں کے خون کی خوشبو اور زمین سے بغاوت کی کونپلیں پھوٹتی ہیں یہ وہ علاقہ ہے جس کی مٹی میں نواب نوروز خان اور سفر خان شہید کی قربانیوں کی گونج دفن ہے، وہ داستانیں جو صرف تاریخ کی کتابوں میں نہیں بلکہ ہر بلوچ دل میں زندہ ہیں۔

زہری آج بھی مزاحمتی جدوجہد میں قیادت کا کردار ادا کر رہا ہے۔ اور اسی سرزمین سے جنم لینے والے عظیم سپوت شہید امتیاز، آفتاب جتک، شہید دلجان، شہید شیرا، فدائی جنید، فصل گل، ذیشان، شہید عزیز اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر اس سرزمین کے تحفظ کے لیے تاریخ میں امر ہو چکے ہیں۔ قاضی جیسے کردار صرف ایک فرد نہیں ہوتے، وہ ایک عہد اور صدیوں کی گونج ہوتے ہیں۔

یہ ایک ایسا خاندان تھا جو معاشی، تعلیمی اور سماجی لحاظ سے خود کفیل تھا۔ ان کے پاس زمینیں تھیں، کاروبار تھا، آسائشیں تھیں مگر انہوں نے وہ سب کچھ ترک کر کے پہاڑوں کو اپنی منزل بنایا۔ ان کا مقصد صرف اپنی زندگی سنوارنا نہیں تھا بلکہ بلوچستان کے ہر فرد کو خودمختار، آزاد اور باوقار زندگی دینا تھا۔

بلوچستان کی آزادی اور غلامی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے قاضی نے جس راہ پر قدم رکھا اس راہ میں اپنی ہر شے قربان کر دی مگر کبھی مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا۔ اُس کا قدم لڑکھڑایا نہیں، اُس کا ارادہ کمزور نہ ہوا۔ قاضی کو توڑنے کے لیے دشمن مسلسل درپے رہا،چھوٹے بھائی مجید بلوچ کی مسخ شدہ لاش، والد رمضان زہری کی گولیوں سے چھلنی لاش، عبد الحئی کے جسم کے ٹکڑے، خاندان کے کئی نوجوانوں کی جبری گمشدگیاںاور ساتھیوں کی مسخ شدہ لاشیں۔

یہ سب منظر، یہ تمام اذیتیں، اس کے حوصلے کو پست کرنے کی بجائے فولاد میں بدلتی گئیں۔ وہ ہر صدمے کو ایک نئے عزم، ایک نئی حکمت عملی میں ڈھالتا گیا۔ غلامی کے خلاف اُس کی مزاحمت میں ہر وار کے بعد ایک نئی شدت آتی گئی ہر حملے کے بعد اُس کی للکار اور بلند ہوتی گئی۔

قاضی کی وفات سے ایک عہد کا اختتام ضرور ہوا لیکن یہ ایک نئے عہد کا آغاز بھی ہے۔ ایک ایسی جدوجہد کا جو اب صرف پہاڑوں تک محدود نہیں، بلکہ ہر گلی، ہر ذہن، اور ہر دل میں دھڑکنے لگی ہے۔ آج قاضی کی یاد میں آنکھوں سے آنسو نہیں، بلکہ عزم کے شعلے نکلتے ہیں۔ شہیدوں کی لاشیں اگر مٹی میں دفن ہوتی ہیں تو ان کے خواب آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگتے ہیں۔

یہ سرزمین جسے ہم بلوچستان کہتے ہیں وہ صرف پہاڑوں، ریت اور سمندروں کا مجموعہ نہیں یہ قربانیوں کی ایک لامتناہی داستان ہے یہ وہ خطہ ہے جہاں شہادتیں فرض ہیں، جہاں مزاحمت صرف ردعمل نہیں شناخت اور ثقافت کا حصہ ہے اور جہاں خواب مزاحمت میں ڈھلتے ہیں۔

قاضی زندہ ہے اپنی سوچ میں، اپنے نظریے میں، اپنی قربانیوں میں اور ان نوجوانوں میں جو آج بھی پہاڑوں پر اُس کے نقش قدم پر چل رہے ہیں وہ چلا گیا لیکن اپنے پیچھے ایک ایسی آگ لگا گیا ہے جو سرد نہیں ہونے والی۔

یہ اختتام نہیں، ایک آغاز ہے اور بلوچ سرزمین ایسے آغازوں کی مٹی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔