قاضی: ایک ہمہ جہت مزاحمتی کردار کی کہانی – فتح بلوچ

187

قاضی: ایک ہمہ جہت مزاحمتی کردار کی کہانی

تحریر: فتح بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ قومی تحریک کی تاریخ بےشمار ایسے سپوتوں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے اپنی محنت، لگن اور جہد مسلسل سے مزاحمت کی شمع کو روشن رکھا۔ ان ہی میں ایک نام باسط زہری عرف “قاضی” کا ہے، جو نہ صرف ایک قابل کمانڈر تھے بلکہ اپنی ذات میں ایک نظریہ، ایک اخلاقی مثال اور ایک مزاحمتی درسگاہ بھی تھے۔

سادگی، علم اور قیادت کا حسین امتزاج

قاضی اپنی ذاتی زندگی میں انتہائی سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ عاجز مزاج، نرم لہجہ اور نرم گفتاری ان کی شناخت تھی، مگر جب بات فیصلہ سازی کی آتی تو وہ غیر متزلزل، واضح اور دوراندیش رہنما کے طور پر سامنے آتے۔ وہ بی ایل اے میں صرف ایک کمانڈر نہیں تھے بلکہ ساتھیوں کے لیے بھائی، استاد اور دوست تھے۔ ان کے دروازے ہر وقت ساتھیوں کے لیے کھلے رہتے، اور فیصلے ہمیشہ مشاورت سے طے پاتے۔ ان کی قیادت میں نہ زعم تھا نہ جذباتی انتقام، بلکہ فکری پختگی اور اصولی مزاحمت تھی۔

خاندان کی قربانی، مگر عزم میں کوئی لغزش نہیں

ریاستی جبر کا سامنا قاضی نے صرف اپنے لیے نہیں بلکہ اپنے پورے خاندان کے لیے کیا۔ ان کے والد، بھائی سمیت خاندان کے کئی افراد کو شہید یا لاپتہ کیا گیا، لیکن ان کا عزم کبھی متزلزل نہ ہوا۔ وہ جانتے تھے کہ آزادی کی راہ میں ذاتی قربانیاں ناگزیر ہیں، اور انہوں نے ہر تکلیف کو خندہ پیشانی سے قبول کیا۔

بیماری کے باوجود مسلسل متحرک

قاضی گردوں کی شدید بیماری میں مبتلا تھے، مگر یہ جسمانی تکلیف ان کے فکری اور تنظیمی کردار میں حائل نہ ہو سکی۔ وہ دن رات تحریک کے لیے کام کرتے رہے۔ ان کے دل و دماغ میں ہمیشہ قوم، جدوجہد اور ساتھیوں کا درد موجزن رہتا۔ وہ ایک ایسے رہنما تھے جو صرف احکامات نہیں دیتے تھے، بلکہ ہر کام میں عملی طور پر شامل رہتے تھے۔

اسلم بلوچ کی شہادت کے بعد قیادت کی ذمہ داری

جب استاد اسلم بلوچ اور دیگر اہم ساتھیوں کی شہادت ہوئی، تو قاضی نے نہایت حکمت و دانشمندی سے قیادت کے ساتھ کئی ذمہ داریاں سنبھالی۔ وہ نہ صرف فرنٹ لائن پر موجود رہے بلکہ شہری نیٹورک کو فعال، منظم اور مربوط کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ ساتھیوں کے مسائل سنتے، ان سے مشورہ کرتے اور ان کی مدد کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھاتے۔

انسانی اقدار کی حامل مزاحمت

قاضی نے بلوچ مزاحمت کو صرف ہتھیار کی جدوجہد تک محدود نہیں رکھا، بلکہ اسے انسانی رنگ دیئے۔ ان کے لیے مزاحمت کا مطلب دشمن سے جنگ کے ساتھ ساتھ اپنی قوم کے ساتھ برابری سے کھڑا ہونا بھی تھا۔ ان کی شخصیت نے یہ واضح کیا کہ ایک انقلابی صرف لڑاکا نہیں بلکہ ایک حساس، مہربان، باخبر اور باعمل انسان بھی ہوتا ہے۔

قاضی کی شہادت: ایک سنگت کا بچھڑ جانا

بلوچ قومی تحریک ایک عظیم رہنما، نظریاتی ہمدرد، اور عملی تنظیم کار سے محروم ہو گئی ہے۔ مگر قاضی نے ہمیں غم کے ساتھ ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی سونپی ہے کہ ہم ان کے مشن کو جاری رکھیں، ان کے اصولوں پر چلیں، اور ان کے خواب کو شرمندہ تعبیر کری۔

قاضی اب ہمارے درمیان نہیں، لیکن ان کی سوچ، ان کا عمل اور ان کی قربانیاں بلوچ قومی تحریک کے ہر کارکن، ہر نوجوان اور ہر آزادی پسند انسان کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ ہمیں صرف ان کا سوگ نہیں منانا، بلکہ ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے جدوجہد کو آگے بڑھانا ہے۔ ان کی زندگی ایک نظریاتی قلعہ تھی، اور ان کا نام ہمیشہ بلوچ تاریخ کے سنہرے باب میں زندہ رہے گا۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔