بلوچ نوجوان زیشان ظہیر کے ماورائے عدالت قتل ریاستی بربریت کی انتہا ہے۔ سمی دین بلوچ

58

بلوچ یکجہتی کمیٹی نے پنجگور میں اپنے رکن اور نوجوان فٹبالر زیشان ظہیر بلوچ کے ماورائے عدالت قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے ریاست پاکستان کو اس سفاک اقدام کا مکمل طور پر ذمہ دار قرار دیا ہے۔

بی وائی سی کی مرکزی رہنما سمی دین بلوچ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا یہ ایک ایسا گھر ہے جہاں خاندان کا سربراہ گزشتہ دس برسوں سے لاپتہ ہے اور اب اس کا واحد بیٹا جو پرامن طریقے سے اپنے والد کی بازیابی کے لیے جدوجہد کررہا تھا بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔

انہوں نے کہا ہر روز ریاستی پشت پناہی میں بلوچ نوجوانوں کو اغوا کر کے ان کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں میں پھینکی جارہی ہیں یہاں جنگل کا قانون نافذ ہے اور انسانوں کی زندگی، عزت اور آواز کو بے رحمی سے کچلا جارہا ہے۔

سمی دین بلوچ نے اپنے بیان میں کہا ہے زیشان ظہیر کا قتل کوئی انفرادی واقعہ نہیں بلکہ بلوچ قوم کے خلاف جاری ریاستی انتقام، نسل کشی اور ادارہ جاتی بربریت کا تسلسل ہے ایک ایسا نوجوان جو صرف اپنے لاپتہ والد کی بازیابی کے لیے پرامن جدوجہد کررہا تھا اس کو مار دینا ظلم کی ایسی انتہا ہے جس پر الفاظ بھی قاصر ہیں۔

یاد رہے کہ زیشان ظہیر بلوچ جو کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی پنجگور زون کے آرگنائزر کمیٹی کے رکن اور پاکستانی فورسز کے ہاتھوں گذشتہ دس سالوں سے جبری لاپتہ ظہیر احمد بلوچ کے فرزند تھے کو 29 جون 2025 کو پنجگور کے معروف علاقے فٹبال چوک سے اغوا کیا گیا۔

عینی شاہدین کے مطابق انہیں ریاستی سرپرستی میں کام کرنے والے ڈیتھ اسکواڈ کے اہلکاروں نے اغواء کیا زیشان کی جبری گمشدگی کے فوری بعد ان کے اہل خانہ اور شہریوں کی جانب سے اسی روز دھرنا دیا گیا تاہم اگلے ہی روز زیشان کی لاش برآمد ہوئی تھی۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی نے زیشان ظہیر کے قتل کے خلاف بلوچستان بھر میں احتجاجی مظاہروں اور دعائیہ تقریبات کے انعقاد کا اعلان کیا ہے، سمی دین بلوچ کے مطابق مرکزی مظاہرہ پنجگور میں ہوگا جبکہ دیگر علاقوں میں بھی عوامی اجتماعات ہوں گے۔

انہوں نے بلوچ عوام اور تمام باشعور شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ان مظاہروں میں بھرپور شرکت کر کے ظلم کے خلاف اپنی آواز بلند کریں۔