جبری لاپتہ صغیر احمد کی بہن نسیدہ بلوچ کا وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاجی کیمپ میں کانفرنس

41

جبری لاپتہ صغیر احمد کی بہن نسیدہ بلوچ نے آج کوئٹہ میں چیرمین نصراللہ بلوچ اور ماما قدیر کے ہمراہ، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاجی کیمپ میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا

انہوں نے کہا کہ آج کی پریس کانفرنس کا مقصد ایک انتہائی دلخراش، حساس اور المناک واقعہ کی طرف توجہ مبذول کرانا ہے جو نہ صرف ہمارے خاندان بلکہ پورے بلوچستان کے لیے ایک اجتماعی صدمہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ انکے بھائی صغیر احمد ولد غلام قادر بلوچ اور کزن اقرار ولد جنگیاں کو فورسز کے اہلکاروں نے 11 جون کی شب اورماڑہ چیک پوسٹ سے زبردستی حراست میں لے کر لاپتہ کر دیا،

اس واقعے کو آج 19 دن سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن تاحال ان کی کوئی اچھی خبر نہیں ملی۔ نہ انہیں کوئی اطلاع دی گئی، نہ ہی ان کی گرفتاری کسی تھانے میں درج ہوئی اور نہ ہی انہیں کسی عدالت میں پیش کیا گیا۔

پریس کانفریس میں نسیدہ بلوچ نے کہا کہ یہ واقعہ ان کے لیے نیا نہیں ہے، لیکن ہر بار ایسا سانحہ ہماری روح کو چیر کر رکھ دیتا ہے۔ انکے بھائی صغیر احمد پہلے 20 نومبر 2017 کو کراچی یونیورسٹی میں امتحان دینے کے بعد لاپتہ ہو گیا تھا۔ ایک سال تک اسے نامعلوم ٹارچر سیلوں میں غیر انسانی سلوک اور شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ صرف ایک دو افراد کی کہانی نہیں ہے۔ یہ بلوچستان کے ہزاروں خاندانوں کی اجتماعی فریاد ہے جو برسوں سے سنی جا رہی ہے لیکن نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

بلوچستان ایک پسماندہ، نظر انداز اور مظلوم خطہ ہے جہاں روزانہ کی بنیاد پر نوجوانوں کو اغوا کیا جاتا ہے، لاپتہ کیا جاتا ہے اور کئی بار ان کی مسخ شدہ لاشیں صحراؤں، پہاڑوں یا سڑکوں کے کنارے پھینک دی جاتی ہیں۔

سوال یہ ہے

کہ یہ کیسا قانون ہے؟

یہ کیسا انصاف ہے؟

یہ کیسی ریاست ہے جہاں پڑھے لکھے نوجوانوں کو بھی مشکوک سمجھا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ انکے بھائی صغیر احمد نے کراچی یونیورسٹی کے بعد سرگودھا یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا۔ اس کے بعد وہ تعلیم کے ذریعے اپنے علاقے، اپنے گھر اور اپنے لوگوں کی خدمت کے لیے اپنے آبائی علاقے آواران آگئے۔ لیکن تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اسے روزگار نہیں ملا، سہولیات کا فقدان تھا۔ اسے مجبوراً تربت منتقل ہونا پڑا اور عزت کے ساتھ روزی کمانے کے لیے اپنے کزن اقرار ولد جنگیان کے ساتھ وہاں ایک آئل ڈپو میں محنت مزدوری شروع کر دی۔

نسیدہ بلوچ نے کہا کہ انکے بھائی اور کزن کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ اپنے خاندان کا پیٹ پالیں، تعلیم یافتہ ہوں اور بلوچ ہوں۔ 11 جون 2025 کو جب وہ تربت سے کراچی کے لیے روانہ ہوئے تو انہیں اورماڑہ چیک پوسٹ پر حراست میں لیا گیا، جس کے بعد سے وہ لاپتہ ہیں۔

انہوں نے کانفرنس کے دوران کہا کہ جب ریاست ہماری حفاظت کی بجائے ہمارے لیے خطرہ بن جائے تو ہم کہاں جائیں؟

عدالتیں خاموش،

پارلیمنٹ لاتعلق،

میڈیا کی ترجیحات مختلف ہیں۔

ہم یہ نہیں کہتے اگر کسی پر الزام ہے تو قانون کے مطابق کارروائی نہ کی جائے۔
ہم کہتے ہیں کہ صغیر احمد یا اقرار پر کوئی جرم ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے، وکیل دیا جائے اور صفائی کا موقع دیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اقرار بلوچ گردے کا مریض ہے اور اسے علاج کی ضرورت ہے۔

جب ریاستی ادارے خود ہی ماورائے آئین اقدامات کرتے ہیں، جب بندوق کے ذریعے قانون کی تشریح کی جاتی ہے تو اعتماد کا رشتہ ختم ہوجاتا ہے۔

انہوں نے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اس پریس کانفرنس کے ذریعے ہم اعلیٰ حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ صغیر احمد اور اقرار کو فی الفور بازیاب کیا جائے۔ اگر ان پر کوئی الزام ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے، آئین کے مطابق کارروائی کی جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم انسانی حقوق کی قومی اور بین الاقوامی تنظیموں، میڈیا، سول سوسائٹی اور سپریم کورٹ سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیں۔ خاموشی بھی جرم ہے اور اب ہمارے پاس خاموش رہنے کا کوئی آپشن نہیں ہے۔

بلوچ نوجوان اب غائب ہونے کے لیے پیدا نہیں ہوئے۔

ہم جینا چاہتے ہیں، ہم تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں، ہم عزت کے ساتھ روزی کمانا چاہتے ہیں۔

لیکن جب ہمیں بار بار لاپتہ کیا جائے گا، تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا اور انصاف کے دروازے بند ہوں گے تو ہم کہاں جائیں گے؟

جبری طور پر لاپتہ ہونے والے صغیر احمد کی بہن نے کہا کہ میری پکار صرف میرے بھائی اور کزن کی نہیں بلکہ ہر اس ماں کے بیٹے کی ہے جو برسوں سے اپنے بچوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک چکی ہے۔

آخر میں انہوں نے کہا کہ میں اس وقت تک چھین سے نہیں بیٹھوں گا جب تک میرا بھائی اور کزن بازیاب نہیں ہو جاتے اور مجھے یقین ہے کہ آپ سب ہماری آواز بنیں گے۔