متعدد یورپی یونین ممالک کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ ابھی اسی بات پر سوچ بچار کی جاری ہے کہ آیا برطانیہ میں سابق روسی جاسوس اور اُن کی صاحبزادی پر کیمیائی حملے کے تناظر میں روسی سفارت کاروں کو ملک چھوڑنے کو کہا جائے یا نہیں۔
آج برسلز میں ہونے والی یورپی بلاک کے رکن ممالک کی سربراہی کانفرنس میں بعض ریاستوں کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ابھی اس حوالے سے حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا کہ آیا روسی سفارت کاروں کو ملک چھوڑنے کو کہا جائے یا پھر برطانیہ سے اظہار یکجہتی کے لیے دیگر اقدامات اٹھائے جائیں۔
برطانیہ نے رواں ماہ کے وسط میں تیئس روسی سفارت کاروں کو جاسوسی کے الزام میں ملک بدر کرنے کا اعلان کیا تھا۔ یورپی یونین سربراہی کانفرنس میں سابق سوویت یونین کی یورپی ریاستوں، چیک ریپبلک،لیتھوینیا، ڈنمارک اور آئر لینڈ کے رہنماؤں نے بھی کہا کہ وہ روسی سفارتکاروں کو نکالنے سمیت مزید یک طرفہ اقدامات اٹھانے پر غور کر رہے ہیں۔
اس سے قبل یورپی یونین کے رہنماؤں نے سابق روسی جاسوس اور ان کی بیٹی پر ہوئے کیمیائی حملے کی وجہ سے پیدا ہونے والے تنازعے میں برطانیہ کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا۔ یورپی یونین نے اس تناظر میں روسی سفیر کو طلب کر کے علامتی احتجاج بھی کیا۔ یورپی یونین کی طرف سے جاری ہونے والے ایک مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ برطانیہ میں ہوئے اس حملے میں بظاہر روس ملوث دکھائی دیتا ہے۔ لندن حکومت اس حملے کے لیے ماسکو کو ذمہ دار قرار دیتی ہے تاہم کریملن نے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔
چیک وزیر اعظم اندریگ بابیاس نے خبر رساں ادارے سی ٹی کے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پراگ حکومت برطانیہ میں دوہرے جاسوس سرگئی سکرپل اور اُن کی تینتیس سالہ بیٹی پر کیے گئے کیمیائی حملے کے تناظر میں متعدد روسی سفارت کاروں کو ملک چھوڑنے کا حکم دے سکتی ہے۔
ایک فرانسیسی صدارتی ذریعے کے مطابق پیرس بھی روس کے خلاف ایسے ہی اقدامات لینے کو تیار ہے۔ یاد رہے کہ سکرپل نے 2004ء میں ماسکو میں گرفتاری سے قبل برطانوی خفیہ ادارےکو متعدد روسی جاسوسوں کی مخبری کی تھی۔ 2006ء میں سکرپل اور تیرہ مزید افراد کو سزائیں سنائی گئی تھیں۔ 2010ء میں برطانیہ کے ساتھ ایک روسی جاسوس کے تبادلے کے دوران انہیں آزادی ملی اور وہ برطانیہ پہنچ گئے۔
چھیاسٹھ سالہ سکرپل اور ان کی 33 سالہ بیٹی چار مارچ کو جنوبی انگلینڈ کے شہر سیلسبری میں بے ہوشی کی حالت میں ملے تھے۔