رفتار نہیں، سمت اہم ہے اور بلوچ کی سمت آزادی ہے – مشال بلوچ

119

رفتار نہیں، سمت اہم ہے اور بلوچ کی سمت آزادی ہے

تحریر: مشال بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا کے ہر مظلوم خطے کی طرح، بلوچ سرزمین بھی ایک چپ چاپ دھواں ہے، جو اندر ہی اندر سلگ رہا ہے۔ مگر فرق صرف یہ ہے کہ اس سرزمین کی سلگن کوئی وقتی غصہ یا عارضی ردعمل نہیں، بلکہ یہ ایک منظم، فکری، تاریخی اور فلسفیانہ جدوجہد ہے، جو بلوچ قوم کو اُس سمت لے جا رہی ہے جو صرف اور صرف آزادی ہے۔

یہ سچ ہے کہ ہم دوڑ میں شامل نہیں۔ ہماری رفتار دنیا کی سیاست، معیشت اور سفارت کاری کے مقابلے میں سست دکھائی دیتی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہماری راہ بالکل واضح ہے اور وہ راہ، راہِ آزادی ہے۔ اور جب قوموں کی راہیں روشن ہوں، تو رفتار خود راستے کی خادمہ بن جاتی ہے۔ بلوچ قوم کی یہ جدوجہد اس بات کا ثبوت ہے کہ سچ، خواہ کتنا ہی تنہا ہو، جب راہِ آزادی اختیار کرے، تو وہ آخرکار تاریخ میں اپنا مقام خود بنا لیتا ہے۔

بلوچ آزادی تحریک کسی وقتی ناراضگی، یا معاشی حقوق کے چند مطالبات کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک مکمل قومی وجود، تہذیبی شناخت، تاریخی اختیار، اور نسلوں کے وقار کی بحالی کی جدوجہد ہے۔ اور ایسی جدوجہد میں کوئی شارٹ کٹ، کوئی فوری نتائج، کوئی وقتی جیت معنی نہیں رکھتی، یہاں صرف ایک چیز معنی رکھتی ہے: سمت۔

بلوچ نوجوان جس راہ پر چل رہا ہے، وہ اگرچہ کانٹوں بھری ہے، اگرچہ اس میں تشدد، جبری گمشدگیاں، گولی، لاشیں، اجتماعی قبریں، اور سولی کی صورتیں ہیں مگر یہ وہی راہ ہے جو دنیا کے ہر آزاد انسان نے اختیار کی ہے۔ یہ وہی راہ ہے جس پر نبیؐ مکہ سے نکالے گئے، جس پر امام حسینؑ کربلا میں اترے، جس پر چی گویرا نے گوریلا بندوق اٹھائی، جس پر نیلسن منڈیلا نے کال کوٹھڑی میں اپنی جوانی قربان کی اور بلوچ قوم اس عظیم روایت کی ایک تازہ شاخ ہے۔

سائنس کے مطابق، اگر رفتار کسی غلط سمت میں ہو، تو وہ صرف تباہی لاتی ہے۔ رفتار کی مثال ایک بلٹ ٹرین کی ہے اگر وہ غلط ٹریک پر ہو، تو جتنی تیز ہوگی، اتنی ہی جلد تباہی لائے گی۔ مگر اگر ایک سپاہی خندقوں میں صحیح سمت میں رینگتا جائے، تو وہ ایک دن قلعے کے اندر پہنچ جاتا ہے۔ بلوچ نوجوان کی خندقیں شاید پہاڑوں میں ہوں، شاید فکری تحریروں میں ہوں، شاید جلاوطنی کے تاریک کمروں میں ہوں مگر وہ صحیح سمت میں ہیں۔

پاکستانی ریاست ہمیں “رفتار” کی مثالیں دیتی ہے۔ وہ ہمیں سی پیک، میٹرو، دفاعی بجٹ، چین کے اتحاد، امریکہ کے دباؤ، اور عالمی میڈیا کی خاموشی کی دھمکیاں دیتی ہے۔ مگر وہ یہ بھول جاتی ہے کہ کسی قوم کے دل کی سمت اگر بغاوت کی طرف ہو، تو کوئی بھی سپر پاور اس کو نہ روک سکتی ہے، نہ دبا سکتی ہے۔

بلوچ تحریک نے اپنے دشمنوں کو واضح طور پر پہچان لیا ہے۔ اس تحریک کا ہدف صرف چند فوجی چوکیوں کو گرانا نہیں، بلکہ سامراجی اسٹیبلشمنٹ، داخلی گماشتوں، اور نفسیاتی غلامی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔ یہ تحریک فقط ہتھیاروں سے نہیں، بلکہ فلسفے، تعلیم، شاعری، اور شعور سے بھی لڑی جا رہی ہے۔ آج بلوچ نوجوان، چاہے وہ کوہِ سلیمان کے دامن میں ہو یا برلن کی لائبریری میں، ایک بات پر متفق ہے: ہماری راہ سچ کی ہے، اور اگر رفتار سست بھی ہو، تو ہم اسی راہ پر مریں گے، مگر جھکیں گے نہیں۔

فلسفی اسپینوزا کہتا تھا کہ ”آزادی کوئی تحفہ نہیں، یہ صرف اُن کو ملتی ہے جو اپنی جان دے کر بھی اس کی حفاظت کرتے ہیں۔“ بلوچ تحریک کے سپوت، چاہے وہ بالاچ مری ہو، یا ڈاکٹر اللہ نذر، چاہے وہ شہید رشید ہو یا ماما قدیر، سب نے یہی دکھایا کہ یہ راہ مشکل ہے، لیکن یہی راہ ہماری ہے۔

بلوچ خواتین، جنہوں نے اپنی ثقافت کو ہر زخم کے باوجود زندہ رکھا، جن کی کوکھوں نے شیر پیدا کیے، جنہوں نے لاشیں اٹھائیں، عدالتیں دیکھیں، وکلا بنیں، آواز بنیں، وہ بھی اس سمت کا حصہ ہیں۔ اور یہ وہی دلیل ہے جو ثابت کرتی ہے کہ بلوچ قوم کی تحریک وقتی نہیں، وقتی ردعمل نہیں، بلکہ تاریخ کی گہرائیوں سے ابھرتی ہوئی ایک لازوال سمت ہے۔

اقوامِ عالم کو سمجھنا ہوگا کہ بلوچ تحریک کی رفتار اگر سست ہے تو اس کی وجہ راستے کی دشواری ہے، مگر اس کی راہ، اُس پہاڑی چشمے کی مانند ہے جو چٹانوں سے گزر کر بھی ایک دن دریا بن جاتا ہے۔ دنیا نے وہ وقت دیکھا جب فلسطین کی تحریک کو دہشتگردی کہا گیا، جب نیلسن منڈیلا دہشتگردوں کی فہرست میں تھا، جب بنگالیوں کی آواز کو غداری کہا گیا — مگر وقت نے انہیں ہیرو ثابت کیا۔ بلوچ تحریک بھی اسی راستے پر ہے۔

سمت کو وقت سمجھ نہیں سکتا، مگر تاریخ ضرور سمجھے گی۔ ہم شاید آج دبے ہوئے ہوں، مگر ہم اپنی راہ پر چل رہے ہیں۔ ہمیں نہ میڈیا کی چکا چوند درکار ہے، نہ عالمی اداروں کی رسمی قراردادیں ہمیں بس اپنی سمت سے وفا چاہیے۔ اور یہ وفا، ہمارے خون میں ہے۔

دنیا نے آج تک جس بھی قوم کو آزادی دی ہے، وہ اُس کے مستقل اور صبر آمیز مزاحمت کے باعث دی ہے۔ بلوچ تحریک میں آج جو کمی ہے، وہ رفتار کی ہے، مگر یہی کمی ایک دن اس تحریک کی سب سے بڑی طاقت بن جائے گی۔ کیونکہ دنیا کی ہر طاقت رفتار سے ڈرتی ہے، مگر وہ کبھی سمت سے نہیں لڑ سکتی کیونکہ سمت نظریہ ہوتی ہے، اور نظریہ ناقابلِ شکست ہوتا ہے۔

بلوچ تحریک کے نوجوانو، تمھارے دل میں اگر دکھ ہے، تو وہ تمھاری روشنی کی دلیل ہے۔ تمھاری بے چینی، تمھاری روح کی بیداری ہے۔ یہ راہ جو تم نے چنی ہے، وہ مشکل ہے، وہ دردناک ہے، مگر وہی راہ ہے جو تمھیں غلامی سے نکال کر حریت کی چوٹی پر لے جائے گی۔

لہٰذا مت دیکھو کہ کتنے سال لگیں گے، مت سنو کہ دنیا کیا کہتی ہے، مت رکو اگر بھائی غائب کر دیا جائے، یا ماں کی فریاد رد کر دی جائے بس یہ دیکھو کہ تم جس راہ پر ہو، وہ راستہ حق کا ہے، سچ کا ہے، آزادی کا ہے۔ اور یاد رکھو:

جن قوموں کی راہیں سچ پر ہوں، وہ اگرچہ دیر سے پہنچتی ہیں، مگر ہمیشہ بلند پہنچتی ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔