بلوچ انسرجنسی پر تاریخی نقطہ نظر اور طلبہ و طالبات کی ذمہ داریاں
نوھان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان تاریخی طور پر قدیم ترین تہذیبوں میں شامل ہوتا ہے جس میں مہرگڑھ جیسے تہذیب کا جنم ہوا ہے جو دنیا کے دوسرے تہذیبوں سے قدیم تاریخ مانی جاتی ہے۔ بلوچستان میں رہنے والے بلوچ قوم اپنے آپ کو اس سرزمین کا باسی مانتے ہیں۔ تاریخی حوالے سے بلوچستان میں مختلف اقوام قبضہ کرنے کے لیے آئیں ہیں جن میں کچھ نے اپنے مذموم مقاصد حاصل کیے ہیں مگر کچھ ناکام بھی رہے ہیں جن میں پرتگیزی، سکندر اعظم، انگریز اور اب پاکستان شامل ہیں، لیکن ہر دور میں قبضہ گیر کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔ ہم آج بیسویں صدی کے قبضے پر بات کرنے والے ہیں اور کچھ سوالات کے جوابات جاننے کی کوشش کریں گے۔
جدید دور میں بلوچ انسر جنسی اپنی مضبوطی کی طرف گامزن ہے، اس کی تاریخی حقائق کیا ہیں؟ بلوچ تحریک کس دن اور کہاں سے شروع ہوئی، شروعات ہونے کے اسباب کیا تھے کہ آج کے دور میں بلوچ نوجوان خاص کر خواتین اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے اپنی لہو سے تاریخ کی پنوں میں سنہری حروف سے اپنی جگہ بنا رہی ہیں؟ کیوں بلوچستان اس وقت حالتِ جنگ میں ہے؟ ان سوالات پر ہمیں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ بحیثیت بلوچ ہمارے لیے یہ بنیادی سوالات ہیں اور ان سوالات کے جوابات کو جاننا ہمارا فرض ہے، تاکہ آج کی منظم ہونے والی پانچویں بلوچ قومی تحریک کو تاریخی حقائق کے ذریعہ سمجھ سکیں۔
ان جوابات کو جاننے کی ضرورت اس لیے ہے کہ بلوچستان کے دیہاتوں اور کوچوں میں رہنے والے بلوچ باسیوں تک تحقیقی مقالہ کم پہنچتی رہی ہے اور سنی سنائی معلومات ایک دوسرے تک پہنچائی جاتی رہی ہیں کیونکہ کم تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے زبانی ایک دوسرے کی بات سن کر اپنا فرض ادا کیا جاتا رہا ہے مگر کتابی منطق، دلائل کیساتھ بحث و مباحثہ نہیں ہوتی تھی۔کل کی بہ نسبت آج بیشتر نوجوان بڑے شہروں کی جامعات میں زیرِ تعلیم ہیں، اور ساتھ حالتِ جنگ میں، اور کتابوں کو اپنا دوست بھی بنا چکے ہیں۔
بات چیت اور بحث مباحثہ کے لیے علمی حوالے سے بہترین ہونا چاہیے، اور حقائق کو سامنے رکھ کر بحث کرنی چاہیے۔ تحقیقی مقالہ جات منطقی دلائل سے لیس ہونا چاہیے، کیونکہ ہوائی باتوں سے تاریخ مسخ ہو جاتی ہے اور یوں ہم حقائق سے آگاہ نہیں ہوتے ہیں، ہمیں اپنی تاریخ سے آگاہ ہو کر صحیح اور غلط کی تمیز کرنا چاہیے۔
برطانیہ نے جب برصغیر سے اپنا قبضہ ختم کیا تو بہت سے آزاد ریاستوں کا وجود ہوا، ان میں سے پاکستان ایک ہے۔ جب پاکستانی ریاست وجود میں آیا تو اس سے پہلے 11 اگست کو بلوچستان میں ریاست قلات وجود میں آئی اور وہاں ایک آزادانہ نظامِ حکومت رائج تھا جس سے یہ ظاہر ہے کہ بلوچ قوم ایک الگ ریاست کی مالک تھی۔ مگر جناح کی فریب اور مکاریوں کی وجہ سے بلوچستان کے اندر بڑی انتشار پھیل گئے۔ جناح کی اس سازش نے ریاست قلات کو کمزور کر دیا جس کے بعد پاکستانی جرنیلوں نے قلات کے اندر فوجی مداخلت کرکے ریاست قلات کو جبراً پاکستان کا حصہ بنایا۔ اسے الحاق کا نام دیا گیا جو کہ بہ زور شمشیر قبضہ تھا۔
سلیگ ایریسن اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ اس غیر قانونی سلوک اور عالمی قوانین کو پاؤں تلے روندنے کے خلاف بلوچستان کے اندر آزادی کی تحریک پہلے ہی دنوں سے شروع ہوتی ہے۔ جس سے بلوچ لیڈر آغا عبدالکریم 1948 میں مسلح جہدوجہد پر اُترتے ہیں۔ دوسری بغاوت شہید نوروز خان کی سربراہی میں سال 1958 میں ہوتی ہے اور تیسری بغاوت جنرل شیروف مری کی سربراہی میں 1968 کو ہوتی ہے جسے فراری کے نام سے جانا جاتا ہے اور اسی طرح چوتھی بغاوت 1973 کو شروع ہوتی ہے جس کے بعد 1977 تک اس بغاوت کو ہزار خان بجارانی، جنرل شیروف مری سمیت بہت سے دوستوں نے پاکستانی قبضے کے خلاف مسلح جہدوجہد کی تھی۔ جو کہ یہاں یہ ظاہر کرتی ہے کہ بلوچستان کی تحریک دو دہائیوں کی نہیں، بلکہ تسلسل کے ساتھ تحریک آزادی طاقتور اور کمزوریوں کے ساتھ چلتی رہی ہے مگر ختم نہیں ہوئی ہے۔
ماضی سے لیکر جدید دور تک پاکستانی تعلیمی اداروں میں مختلف شعبوں کے پروفیسرز، تجزیہ نگار اور صحافی دانشوروں نے بلوچ قومی تحریک کی شروعات نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کے بعد سے دیکھتے اور سمجھتے ہیں اور اپنے شاگردوں کے سامنے یہی بیانیہ کو سامنے لانے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ وہ اس بات سے اپنے آپ کو انجان کرتے ہیں کہ اس تحریک کی جڑیں 1948 سے پیوست ہیں۔ دراصل پروپیگنڈا سے حقیقت کو چھپانے کی ناکام کوششیں کر رہے ہیں، جبکہ بہت سے ایسے ڈسکورس نام نہاد دانشور، زر خرید (ابلاغ عامہ) میڈیا اپنے مختلف ذرائع سے پھیلا رہے ہیں جو کہ یہ سب سوچی سمجھی سازش ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ قومی تحریکوں میں نوجوانوں نے اپنی انتہائی محنت، لگن، اور قومی جذبے کے ساتھ بیرونی قوتوں کے خلاف سیاسی اور عسکری محازوں میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ تاریخ میں محکوم قوموں کے لیے جانیں نچھاور کرنے والے جانبازوں کو قومی ہیروں کے نام سے جانا جاتا ہے جس کی مثال آج بنگلہ دیش، ویتنام، چین، افریقہ اور خاص طور پر بلوچستان میں دیکھنے کو ملتی ہے۔
بنگال کی قومی تحریک پر نظر دوڑائی جائے تو طلبہ و طالبات نے بڑی دیدہ دلیری سے پاکستانی فوج کے خلاف آزادی کے لیے جہدوجہد کی تھی۔ اس بارے میں واھگ بزدار لکھتے ہیں کہ جب پنجابی قبضہ گیر نے مشرقی پاکستان کے لوگوں کو بتائے بغیر اردو زبان کو قومی زبان قرار دے دیا تو بنگالی طلبہ و طالبات نے اس ناانصافی کے خلاف اپنی آواز بلند کرنا شروع کی۔ بقولِ واھگ بزدار بنگالی نوجوان اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ اگر آج ہم نے اس ناانصافی کے خلاف مزاحمت نہیں کی اور خاموش رہے تو یہ پنجابی قبضہ گیر ہم پر مزید مسلط ہو جائے گا۔ علاوہ ازیں واھگ بزدار مزید رقم طراز کرتے ہیں کہ مغربی پاکستان (جو آج بنگلہ دیش ہے) آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا تھا۔
نوجوان طبقہ سوچتے رہے کہ ہماری آبادی زیادہ ہے اور زبان بھی زیادہ بولی جاتی ہے مگر کیوں ہماری زبان کو قومی حیثیت نہیں دی جا رہی؟ سوچ بچار کے بعد نتیجہ تک پہنچ گئے کہ پنجابی قبضہ گیر ہماری زبان اور تاریخ کو مسخ کرنا چاہتا ہے۔
طلبہ نے 1952 میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے اندر سیاسی مزاحمت کا تسلسل شروع کر دیا۔ اس تحریک میں لوگوں نے کافی حد تک شرکت کی تھی۔ اس تحریک کو طلبہ ہی لیڈ کر رہے تھے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں احتجاج کے دوران پاکستانی فوج نے گولیاں چلائیں جس کی وجہ سے پانچ نوجوانوں نے جام شہادت نوش کی جو کہ بنگلہ دیش کی تاریخ میں سنگ میل کا کردار ادا کرتی ہے جن میں عبدالجبار، عبدالسلام، رفیق الدین احمد، عبدالبرکات، شفیع الرحمن بنگال کے عظیم فرزندوں نے اپنی قومی زبان، تہذیب اور تاریخ کو بچانے کے لیے بہادرانہ خدمت سر انجام دی تھی۔ ان کی قربانیوں کی وجہ سے 21 فروری کو عالمی زبانوں کا دن منایا جاتا ہے۔
دوسری بڑی مثال ویتنامی طلبہ کی ہے جنہوں نے امریکہ جیسی طاقتور ریاست کو شکست سے دوچار کر دیا اور انہی کے باعث ویتنام امریکہ سے آزادی حاصل کرتا ہے۔ جب امریکہ نے ویتنام کے اندر فضائی بمباری کی تو اس وقت ویتنامی طلبہ جو کہ امریکہ میں تعلیم حاصل کر رہے تھے، انہوں نے امریکہ کی جابریت اور ویتنام پر ہونے والی غیر قانونی فوجی مداخلت کے حوالے سے امریکہ کے اندر اپنی آزادی کی پرچار کرنا شروع کی اور بہت سے امریکی شہروں میں جا کر لوگوں کو آگاہی دینے لگے کہ امریکہ ویتنام کے اندر غیر قانونی اور غیر انسانی سلوک کر رہا ہے جس کی ذمہ دار آپ لوگ بھی ہیں کیونکہ آپ کی خاموشی ہمارے لوگوں کی جانیں لے رہی ہے۔ حقیقت کو منظر عام پر لایا گیا، ویتنامی طلبہ نے امریکہ کے باشندوں کے سامنے رکھ دیا جس کی وجہ سے امریکی باشندے روڑوں پر نکل کر امریکی ریاست کو تنقید کا نشانہ بنانے لگے اور ویتنامی طلبہ کے ساتھ اظہارِ یکجہتی میں شریک ہوگئے۔ ویتنامیوں نے اپنی آزادی کی ایجنڈا کو دلائل، شواہد اور حقائق کے ساتھ پیش کیا اور امریکی عوام ان کے غم میں شریک ہوئے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بلوچ طلبہ و طالبات اپنی قومی تحریک کے لیے کس حد تک جدوجہد کرنے کو تیار ہیں؟
قومی تحریک میں خاص کر پڑھی لکھی طلبہ و طالبات کو اپنی صلاحیتوں کے تحت حصہ لے کر اپنی انتھک محنت سے کردار ادا کرنا چاہیے۔ اگر تحریکی لحاظ سے دیکھا جائے تو بلوچ سماج میں ہمیں یہ الٹا دیکھنے کو مل رہا ہے جہاں طلبہ و طالبات مردہ ضمیر، لالچ پرست، ذاتی بغض اور انفرادی سوچ جیسے نظریات کو فروخت دے رہے ہیں اور خود استعماری ذہنیت میں مبتلا ہیں۔ خود کچھ نہیں کر سکتے اور دوسروں کو بھی اپنے صفوں میں شریک کر رہے ہیں جس سے ان کو ادراک نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کے ساتھ تحریک کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں جس کی وجہ سے جہدِ آزادی کمزور ہو سکتی ہے۔
بلوچ سرزمین میں جنم لینے والا ہر فرد بلوچ رسم و رواج، ثقافت کا حفاظت کرنے والا، اور قوم کے ترجمان ہونا چاہیے اور ساتھ تحریک آزادی میں عملی کردار ادا کرنا چاہیے۔ لاشعوری طور پر نہیں، بلکہ شعوری طور پر عملی اقدامات پختہ یقین کے ساتھ قربانی کے لیے تیار ہونا چاہیے۔ قوم کا ترجمان اگر نوجوان ہوگا تو وہ تعلیمی اداروں میں دوسرے اقوام جیسے کہ سندھی، پشتون، گلگتی، کشمیری کے ساتھ تعلقات قائم کر کے قوم کی ترجمانی کرے گا اور جو ڈسکورس پھیلائی گئی ہے انہیں اصل حقائق سے واقف کر کے قومی آزادی کے نظریہ ان کے سامنے رکھ سکے گا۔ جو بلوچ تحریک پر بے بنیاد الزامات لگائی گئی ہیں انہیں دور کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔