بارکھان: سی ٹی ڈی کا جعلی مقابلہ، تین لاپتہ افراد قتل

262

بلوچستان کے ضلع بارکھان کے علاقے تنگ کریر میں آج صبح سی ٹی ڈی کے ایک مبینہ مقابلے کے بعد تین لاشیں رکنی بی ایچ یو اسپتال منتقل کی گئیں، جن کی شناخت ان افراد کے طور پر ہوئی جو جبری گمشدگی کا شکار بنے تھے۔

لاشوں کی شناخت عبدالرحمن بزدار ولد فیض محمد بزدار سکنہ راڑہ شم، فرید بزدار ولد رحیم بزدار سکنہ راڑہ شم اور سلطان مری ولد عیدو مری کے ناموں سے ہوئی ہے۔

مقامی ذرائع کے مطابق یہ تینوں افراد کئی مہینوں سے لاپتہ تھے۔

ترجمان سی ٹی ڈی کے مطابق، بارکھان کے علاقے تنگ کریر میں کارروائی کے دوران مسلح افراد سے فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں دو افراد ہلاک ہو گئے، جبکہ ان کے دیگر ساتھی فرار ہو گئے۔ ترجمان نے دعویٰ کیا کہ ہلاک افراد کے قبضے سے دو کلاشنکوف، ایک پستول اور دو تیار بم برآمد کیے گئے، اور ان کا تعلق کالعدم تنظیم سے تھا۔

تاہم، لواحقین اور بلوچ حلقوں کا موقف ہے کہ یہ ایک جعلی مقابلہ ہے، جس میں پہلے سے جبری طور پر لاپتہ افراد کو قتل کر دیا گیا ہے۔

بلوچستان میں یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ماضی میں بھی متعدد بار سی ٹی ڈی پر ایسے الزامات لگتے رہے ہیں کہ جبری لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں قتل کیا جاتا ہے۔

حالیہ مہینوں میں بلوچستان میں اس نوعیت کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، جن میں لاپتہ افراد کی لاشیں “مقابلوں” کے بعد ملتی رہی ہیں۔ قوم پرست ریاستی اداروں پہ الزام عائد کرتے ہیں بلوچستان میں ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیاں اور جعلی مقابلے روز کا معمول بن چکے ہیں۔

رواں سال ضلع دُکی میں 19 اپریل کو محکمہ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے ایک کارروائی کے دوران پانچ افراد کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ تاہم بعد ازاں ان ہلاک شدگان کی شناخت جبری لاپتہ افراد کے طور پر ہوئی۔

اس سے پہلے کوئٹہ کے علاقے درخشاں میں بھی سی ٹی ڈی نے ایک مبینہ مقابلے میں دو افراد کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اسی طرح ضلع زیارت کے علاقے چوتیر میں سی ٹی ڈی اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مشترکہ کارروائی کے دوران مسلح افراد سے فائرنگ کے تبادلے میں سات افراد کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا تھا جو سب بعدازاں جعلی مقابلے ثابت ہوئے جن میں پہلے سے لاپتہ افراد کو قتل کیا گیا۔