وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز خان بگٹی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں جاری بدامنی کو محض احساسِ محرومی سے جوڑنا درست نہیں، بلکہ یہ ریاست کے خلاف منظم سوچ کی عکاسی ہے۔ انہوں نے یہ بات ایک ٹی وی انٹرویو میں گفتگو کے دوران کہی۔
سرفراز بگٹی نے ایک ذاتی واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بیٹے کا ایک کلاس فیلو، جو ایک خوشحال خاندان سے تعلق رکھتا ہے، نے جعفر ایکسپریس پر حملے کو درست قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ “یہ ریاست کے خلاف سوچ ہے جو معصوم بچوں کے ذہن میں بھی بٹھائی جا رہی ہے۔”
انہوں نے گوادر کی ایک خاتون خودکش حملہ آور مائل بلوچ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ “وہ بھی ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتی تھی جس کے افراد ریاستی نظام کا حصہ رہ چکے تھے، اس کے والد میونسپل کمیٹی کے چیئرمین تھے۔
وزیر اعلیٰ نے مزید کہا کہ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) خود کو احساسِ محرومی سے وابستہ نہیں کرتے بلکہ ان کا مقصد ریاست پاکستان کی تقسیم ہے۔
انہوں نے کہا کہ “اگر احساسِ محرومی کا یہی پیمانہ ہے تو جنوبی پنجاب کے لوگ بھی ہتھیار اٹھا سکتے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہوتا۔
سرفراز بگٹی نے کہا کہ 2000 میں جسٹس نواز مری کے قتل سے جو سلسلہ شروع ہوا، اس وقت سے لے کر آج تک بلوچستان میں بہت کچھ بدلا ہے۔ انہوں نے مثال دی کہ تربت کے راستے بہتر ہو چکے ہیں، اور جہاں پہلے 20 گھنٹے لگتے تھے، وہاں اب صرف چند گھنٹے درکار ہیں۔
وزیراعلیٰ نے بلوچستان کے سیاسی ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ “حیدرآباد ٹریبونل کیس میں دو سوچیں سامنے آئیں۔ ایک نواب خیر بخش مری کی تھی جو مسلح جدوجہد کے حامی تھے، جبکہ دوسری میر غوث بخش بزنجو کی جو سیاسی جدوجہد کے ذریعے حقوق کی بات کرتے تھے۔
سلیم صافی کے اس سوال پر کہ ان کے اقتدار میں آنے کے بعد مسلح کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ “ہم نے دہشتگردوں کو دہشتگرد کہا ہے۔ پہلے سڑکیں بند ہوتی تھیں، اب نہیں ہوتیں۔ دہشتگردی میں کمی آ رہی ہے اور مزید کمی آئے گی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ صوبے میں گورننس کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، اسکول کھولے جا رہے ہیں، اور ملازمتوں کی شفاف تقسیم کے لیے میٹرک کے نمبروں کی بنیاد پر بھرتیاں کی جا رہی ہیں۔
سرفراز بگٹی نے لاپتہ افراد کے حوالے سے سوال پر کہا کہ “خیبر پختونخوا میں لاپتہ افراد کی تعداد بلوچستان سے زیادہ ہے، مگر اس پر بات نہیں ہوتی۔ صرف بلوچستان کے لاپتہ افراد کو مخصوص انداز میں اجاگر کیا جاتا ہے، جو ریاست کے خلاف بیانیے کا حصہ بن چکا ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ بلوچستان میں کبھی سوات طرز کا آپریشن نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی گاؤں خالی کرایا گیا یا بازار پر بمباری کی گئی۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا بلوچستان میں بھی خیبر پختونخوا جیسا آپریشن ہو سکتا ہے تو ان کا جواب تھا کہ “دہشتگردوں کی ایسی صلاحیت نہیں کہ ان کے خلاف بڑا آپریشن کیا جائے، البتہ انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز ہو رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ ریاست کے پاس ہر آپشن موجود ہے۔