پروپیگنڈا: ایک مہلک ہتھیار — پنجابی ریاستِ پاکستان اور بلوچ مسلح جدوجہد۔
تحریر: سردار خان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
پروپیگنڈا محض الفاظ کا کھیل نہیں، بلکہ اذہان و افکار کو مسخّر کرنے کا وہ مہلک ہتھیار ہے جو بارود سے زیادہ تباہ کن اور خاموشی سے کارفرما ہوتا ہے۔ جہاں گولی بندوق سے جسموں کو چھلنی کرتی ہے، وہاں پروپیگنڈا روح و شعور کو مجروح کرتا ہے، حقیقت کو دھند میں چھپاتا ہے، اور جھوٹ کو سچ کا جامہ پہنا کر پیش کرتا ہے۔
پروپیگنڈا ایک منظم اور حکمتِ عملی کے تحت معلومات پھیلانے کا عمل ہے، جس کا مقصد عوام کی رائے، خیالات اور رویوں کو کسی مخصوص مقصد، نظریے یا ایجنڈے کے حق میں تبدیل کرنا ہوتا ہے۔ یہ عمل اکثر جانبدار، گمراہ کن یا جذباتی مواد پر مبنی ہوتا ہے تاکہ سچائی، بیانیے اور لوگوں کے ذہنوں پر قابو پایا جا سکے۔
ایّامِ جنگ میں پروپیگنڈا حکومتوں کے لیے ایک مؤثر ترین ذریعہ رہا ہے، جس کے ذریعے وہ عوامی رائے کو اپنے حق میں ہموار کرتی ہیں، قومی حوصلے اور عزم کو بلند رکھتی ہیں، نوجوانوں کو فوج میں شمولیت پر آمادہ کرتی ہیں، دشمن کو شیطان صفت بنا کر پیش کرتی ہیں، اور جنگ کو ایک ناگزیر و جائز عمل کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
موثر جنگی پروپیگنڈا کے نمایاں نمونے:
دشمن کو غیر انسانی ظاہر کرنا، تاکہ اس کے خلاف تشدد کو قابلِ قبول بنایا جا سکے۔
قومی یکجہتی کا تصور، “ہم بمقابلہ وہ” جیسے بیانیے کو فروغ دینا۔
بہادری اور قربانی کا تقدس، فوجی جوانوں اور حب الوطنی کو عظمت کے ساتھ پیش کرنا۔
سادہ اور جذبات انگیز پیغامات، آسان فہم اور جذبات سے لبریز مواد فراہم کرنا۔
معلومات پر کنٹرول، سنسرشپ اور بیانیے میں یکسانیت کو یقینی بنانا۔
پروپیگنڈا وقت کی نزاکت سے جڑا ہوا معاملہ ہے، اگر تاخیر کی جائے تو موقع ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ جنگ کے دوران یہ سب سے طاقتور اور خطرناک ہتھیاروں میں سے ایک ہے۔ اس میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ سچ کو جھوٹ میں بدل دے، یا جھوٹ کو اس قدر چمکا کر پیش کرے کہ لوگ اسے بآسانی حقیقت سمجھنے لگیں۔
پروپیگنڈا کے بنیادی عناصر:
واضح مقصد:
پروپیگنڈا ہمیشہ کسی مخصوص اور واضح مقصد کے تحت کیا جاتا ہے، جیسے کہ جنگ کی حمایت حاصل کرنا، فوج میں بھرتی کی ترغیب دینا، مخالفین کو بدنام کرنا، یا عوامی رائے کو انتخابات میں متاثر کرنا۔
منتخب حقائق:
اس میں حقائق کو چن کر یا توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ وہ ایک خاص بیانیے یا مفاد کے مطابق دکھائی دیں۔
جذباتی اپیل:
پروپیگنڈا اکثر انسانی جذبات، جیسے خوف، غصہ، نفرت یا امید کو بھڑکانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تاکہ لوگوں کی منطقی اور تنقیدی سوچ کو پس پشت ڈال دیا جائے۔
اجتماعی ترسیل:
اس کا پیغام وسیع پیمانے پر ذرائع ابلاغ، جیسے پوسٹرز، تقاریر، فلمیں، اخبارات یا سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلایا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد تک پہنچ سکے۔
مخصوص سامعین:
پروپیگنڈا کا مواد عام طور پر کسی خاص گروہ یا طبقے کے نظریات، احساسات اور ترجیحات کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب دیا جاتا ہے تاکہ زیادہ اثر انگیز ثابت ہو۔
پروپیگنڈا کی اقسام:
White Propaganda
اس میں معلومات کا ذریعہ واضح ہوتا ہے، مواد بظاہر سچ پر مبنی ہوتا ہے، مگر اس میں تعصب پایا جاتا ہے۔
Gray Propaganda
اس کا ماخذ غیر واضح یا مشکوک ہوتا ہے، اور اس میں سچ اور جھوٹ کا امتزاج شامل ہوتا ہے۔
Black Propaganda
اس میں جھوٹے ذرائع کا حوالہ دیا جاتا ہے، اور دانستہ طور پر جھوٹ، فریب یا گمراہ کن معلومات پھیلائی جاتی ہیں۔
مؤثر پروپیگنڈا تیار کرنے کے لیے درکار بنیادی وسائل:
Human Resources
مواد تیار کرنے والے: مصنفین، گرافک ڈیزائنرز، ویڈیو پروڈیوسرز۔
نفسیات و سماجیات کے ماہرین: ترغیب، گروہی رویوں اور ثقافتی رجحانات کو سمجھنے والے ماہرین۔
حکمتِ عملی کے ماہرین: سیاسی تجزیہ کار، مہم کے نگران، ابلاغِ عامہ کے ماہرین۔
Financial Resources
میڈیا میں اشتہارات کی خریداری (ٹی وی، ریڈیو، سوشل میڈیا وغیرہ)۔
مواد کی تیاری (فلمیں، پوسٹرز، ویب سائٹس)۔
اثر و رسوخ رکھنے والوں سے شراکت داری۔
عوامی مہمات، ریلیاں یا تقاریب کی تنظیم۔
Media Infrastructure
ملکی میڈیا: سرکاری ویب سائٹس، بلاگز، نیوز لیٹرز۔
غیر رسمی میڈیا کوریج: پریس ریلیزز، میڈیا رپورٹس، مشہور شخصیات کی حمایت۔
ادائیگی شدہ میڈیا: اخبارات، ٹی وی، ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر اشتہارات۔
سوشل میڈیا نیٹ ورکس: فیس بک، ایکس (ٹوئٹر)، یوٹیوب وغیرہ پر فعال اکاؤنٹس۔
Technological Tools
ڈیٹا اینالٹکس: نشانہ بنائی گئی آبادی کی شناخت اور اثر پذیری کا جائزہ۔
مصنوعی ذہانت و خودکار نظام: مواد کی تیاری، بوٹس، جذباتی تجزیہ۔
ڈیزائن سافٹ ویئر: مؤثر بصری اور ملٹی میڈیا مواد کی تخلیق کے لیے۔
ڈیجیٹل مارکیٹنگ پلیٹ فارمز: مثلاً فیس بک ایڈز مینیجر، گوگل ایڈز۔
Narrative & Messagingواضح نظریاتی بنیاد: ایسے بنیادی پیغامات جو ہدف شدہ عوام کے جذبات، خوف یا اقدار سے ہم آہنگ ہوں۔
جذباتی اپیل: خوف، نفرت، غصے یا امید جیسے جذبات کو ابھارنے والا مواد۔
علامات اور نعرے: آسانی سے پہچانے جانے والے اور دہرانے کے قابل۔
Distribution Channels
روایتی ذرائع: اخبارات، ریڈیو، ٹی وی۔
ڈیجیٹل ذرائع: سوشل میڈیا۔
فزیکل ذرائع: پمفلٹس، پوسٹرز، عوامی نمائشیں۔
Legitimacy & Influence
ترجمان: ایسے معتبر افراد، مشہور شخصیات یا مقامی رہنما جو پیغام کو تقویت دیں۔
آسٹروٹرفنگ: جعلی عوامی تحریکیں تاکہ رائے عامہ کو مصنوعی طور پر اپنے حق میں دکھایا جا سکے۔
فرنٹ آرگنائزیشنز: ایسی تنظیمیں جو بظاہر غیر جانبدار نظر آئیں مگر ریاستی یا نظریاتی مقاصد کی خدمت کرتی ہوں۔
پروپیگنڈا کا نفسیاتی زاویہ:
نفسیاتی اعتبار سے، پروپیگنڈا انسانی ذہنوں کو متاثر کرنے اور ان کے خیالات، جذبات اور رویوں کو قابو میں لانے کا ایک گہرا عمل ہے۔ یہ فرد کی شعوری سوچ کو نظرانداز کرتے ہوئے لاشعوری سطح پر اثر انداز ہوتا ہے۔ خوف، غصہ، نفرت یا امید جیسے جذبات کو ابھار کر فیصلہ سازی اور رائے سازی کے عمل کو متاثر کرتا ہے۔
یہ اس طرح کے پیغامات پر مبنی ہوتا ہے جو مخصوص نظریات کو سچ کے طور پر پیش کرتے ہیں، تاکہ فرد خود سوچنے کے بجائے ایک تیار شدہ بیانیے کو قبول کر لے۔ نفسیاتی طور پر، پروپیگنڈا ایک طرح کی ذہنی مشروطی (mental conditioning) پیدا کرتا ہے جس کا مقصد عوامی ذہن سازی اور جذباتی کنٹرول ہوتا ہے۔
سگمنڈ فرائیڈ (Sigmund Freud) کے نفسیاتی نظریات کی روشنی میں پروپیگنڈا کو دیکھیں اور سمجھنے کی کوشش کریں تو، فرائیڈ نے انسان کے لاشعور (unconscious mind)، جذباتی دباؤ، اور جبلتوں (instincts) کو انسانی رویے کی بنیاد قرار دیا ہے۔
فرائیڈ کا نظریہ اور پروپیگنڈا
لاشعور (Unconscious Mind) پر اثر:
فرائیڈ کے مطابق انسان کے بیشتر فیصلے اور رویے اُس کے لاشعوری ذہن سے جنم لیتے ہیں۔ یہی وہ حصہ ہے جو ہماری دبی ہوئی خواہشات، خوف، اور جذبات کا مرکز ہوتا ہے۔
پروپیگنڈا اسی لاشعوری ذہن کو ہدف بناتا ہے، مثلاً خوف، سلامتی کی خواہش، نفرت، یا طاقت کی طلب کو چھیڑ کر فرد کو کسی مخصوص بیانیے پر قائل کرتا ہے، بغیر اس کے کہ وہ شعوری طور پر اس پر سوال اٹھائے یا اس کا تجزیہ کرے۔
Id، Ego، اور Superego:
فرائیڈ نے انسانی ذہن کو تین حصوں میں تقسیم کیا:
Id: جبلتی خواہشات اور فوری لذت کی تلاش (مثلاً: غصہ اور طاقت)۔
Ego: حقیقت پر مبنی فیصلہ سازی، جو Id اور حقیقت کے درمیان توازن قائم کرتا ہے۔
Superego: ضمیر، اخلاقی اقدار اور سماجی اصولوں کی نمائندگی کرتا ہے۔
پروپیگنڈا Id کی اندرونی خواہشات کو چالاکی سے متحرک کرتا ہے، جیسے دشمن کے خلاف نفرت یا قوم پرستی کا فخر، تاکہ فرد کا Ego اور Superego کمزور پڑ جائے، اور وہ غیر منطقی یا جذباتی فیصلے کرنے لگے۔
دفاعی طریقہ کار (Defense Mechanisms):
فرائیڈ کے مطابق جب انسان پر داخلی یا خارجی دباؤ بڑھتا ہے، تو وہ لاشعوری طور پر دفاعی ردعمل اختیار کرتا ہے، جیسے:
انکار (Denial): حقیقت کو تسلیم نہ کرنا۔
جواز تراشی (Rationalization): غیر عقلی عمل کے لیے عقلی وضاحت پیش کرنا۔
الزام تراشی (Projection): اپنی خامیاں دوسروں پر ڈال دینا۔ پروپیگنڈا ان دفاعی رویّوں کو ہوا دیتا ہے، مثلاً دشمن کو تمام معاشرتی مسائل کا ذمہ دار ٹھہرانا (scapegoating)، تاکہ عوام کو وقتی جذباتی سکون ملے اور وہ اصل مسائل سے نظریں چرا کر پروپیگنڈا کے تیار کردہ بیانیے کو قبول کر لیں۔
مثلا، نازی جرمنی میں جوزف گوئبلز کی پروپیگنڈا مشینری نے فرائیڈ کے نفسیاتی اصولوں، خصوصاً لاشعور اور دفاعی طریقہ کار کا بھرپور استعمال کیا۔ یہودیوں کو جرمن معاشرتی و اقتصادی زوال کا سبب بتایا گیا۔ خوف، غصہ اور نفرت جیسے جذبات کو Id کے ذریعے متحرک کیا گیا، اور Superego کو قومی فخر اور نسلی برتری کے پردے میں دبایا گیا، جس سے عوام نے شعوری تنقید کے بجائے جذباتی ردعمل اختیار کیا۔
پنجابی ریاست کا بیانیہ، عسکری ناکامیاں اور حقائق کی پردہ پوشی اور بلوچ مزاحمت کی تصویر کشی:
پنجابی ریاستِ پاکستان نے ہمیشہ اپنے سیاسی و عسکری مقاصد کے حصول کے لیے اس پروپیگنڈا کو مہارت سے استعمال کیا ہے، بالخصوص بلوچستان کی آزادی کی تحریک اور بلوچ مزاحمت کے خلاف۔ ریاستی بیانیہ ہمیشہ کوشش کرتا ہے کہ بلوچ سرمچاروں کی جدوجہد کو دہشت گردی، بیرونی سازش یا غداری کے عنوان سے پیش کیا جائے، تاکہ نہ صرف بین الاقوامی رائے عامہ کو گمراہ کیا جا سکے بلکہ اپنے ہی شہریوں کے اذہان کو ایک خاص زاویے سے قابو میں رکھا جا سکے۔ اس پروپیگنڈا کی نوعیت صرف اخبارات، ٹی وی یا بیانات تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک ہمہ گیر نظام کی صورت میں سامنے آتا ہے جس میں ریاستی میڈیا، تعلیمی نصاب، فلمیں، مذہبی خطبات اور سیاسی مباحث سب شامل ہیں۔ریاستِ پنجاب نے صرف عسکری قوت کا سہارا نہیں لیا، بلکہ اس کے ساتھ ایک منظم، گہرے اور دوررس پروپیگنڈا نظام کو بھی پوری مہارت سے استعمال کیا ہے۔ اس نظام کا بنیادی مقصد نہ صرف بلوچ مزاحمتی تحریک کو بدنام کرنا ہے، بلکہ ریاستی آپریشنز کے لیے رائے عامہ کو ہموار کرنا، ان کارروائیوں کو “جائز” قرار دینا، اور بلوچ نسل کشی کے عمل کو مزید شدت سے جاری رکھنا بھی ہے۔
اس حکمتِ عملی کے تحت عام بلوچ آبادی پر فوج کشی، طلبہ اور سیاسی کارکنوں کو دہشت گردی کے الزامات کے تحت جبری گمشدگی کا نشانہ بنانا، انہیں برسوں ٹارچر سیلز میں قید رکھنا، اور بالآخر ریاستی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے جعلی مقابلوں میں قتل کر کے “دہشتگردوں” کی لاشیں قرار دینا شامل ہے۔
اس سب کے ساتھ، عوامی شعور، رائے اور فہم و ادراک کو ایک خاص ریاستی بیانیے کے تابع کرنے کی منظم کوشش کی جاتی ہے۔ بلوچ مزاحمت کاروں کو “دہشتگرد”، “بھارتی ایجنٹ” یا “را کے کارندے” کے طور پر پیش کر کے ایک مخصوص منفی تصور تخلیق کیا جاتا ہے، جسے ریاستی میڈیا، سرکاری ترجمانوں اور سیاسی قیادت کے بیانات کے ذریعے مسلسل تقویت دی جاتی ہے، تاکہ سچ اور جھوٹ کے درمیان کی حدیں مٹا دی جائیں اور حقیقی جدوجہد کو دہشتگردی کے پردے میں چھپا دیا جائے۔
جب بھی بلوچ سرمچار پنجابی فوج یا اس کے خفیہ اداروں پر کاری ضرب لگاتے ہیں، تو ریاستی ادارے اور ان کے ترجمان ان کامیاب کارروائیوں کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے فوری طور پر انہیں صرف دہشت گردی یا بیرونی مداخلت کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔ اس ردعمل کا بنیادی مقصد نہ صرف بلوچ عوام، بلکہ پنجاب کے زیرِ اثر دیگر علاقوں کی عوامی رائے کو قابو میں رکھنا ہوتا ہے، تاکہ اصل حقائق تک ان کی رسائی ممکن نہ ہو اور وہ ریاستی بیانیے سے ماورا سوچنے کی جرأت نہ کر سکیں۔
پنجاب کے پاس پروپیگنڈا تیار کرنے اور پھیلانے کے انتہائی منظم اور مؤثر ذرائع موجود ہیں، جن میں الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا نیٹ ورکس، سرکاری بیانات، تعلیمی نصاب اور حکومتی ترجمانوں کا نیٹ ورک شامل ہے۔ ان وسائل کی مدد سے وہ نہ صرف بیانیہ ترتیب دیتا ہے، بلکہ عوامی شعور، رائے اور ادراک کو بھی اپنے مفادات کے تابع بنانے میں بعض اوقات وقتی کامیابی حاصل کر لیتا ہے۔ تاہم، سچائی کو ہمیشہ کے لیے دبانا ممکن نہیں ہوتا، اور جھوٹ پر مبنی بیانیے بالآخر اپنی موت آپ مر جاتے ہیں۔
ایک واضح مثال حالیہ حملہ ہے، جب خضدار میں پنجابی فوج کے قافلے پر حملے کو جان بوجھ کر مسخ کر کے اسکول کے بچوں پر حملہ قرار دیا گیا۔ اس جھوٹے دعوے کا مقصد نہ صرف بلوچ مسلح جدوجہد کو بدنام کرنا تھا، بلکہ عوامی ہمدردی کو ریاستی بیانیے کی طرف موڑنا بھی تھا۔
خضدار میں حالیہ حملے کے تناظر میں یہ پہلو خاص توجہ کا مستحق ہے کہ اس واقعے کے اصل حقائق کو نہایت چالاکی اور منصوبہ بندی کے ساتھ عوام کی نظروں سے اوجھل رکھا گیا۔ جب اس حملے کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر سامنے آئیں تو ان میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا کہ جائے وقوعہ کو مکمل طور پر صاف کر دیا گیا ہے۔ وہاں صرف تباہ شدہ بس کا ملبہ اور چند فوجی اہلکاروں کی موجودگی نظر آتی ہے، جب کہ ایک جانب چند بستے پڑے دکھائی دیتے ہیں جو حیرت انگیز طور پر بلکل صاف اور غیرمتاثرہ حالت میں ہیں اور بظاہر اسکول کے بچوں کے معلوم ہوتے ہیں۔ تاہم، وہاں نہ تو کسی طالب علم کی لاش دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی کسی زخمی بچے کا کوئی نشان یا طبی امداد کی سرگرمی نظر آتی ہے، جو کہ ریاستی دعوؤں پر سنجیدہ سوالات اٹھاتا ہے۔
اسی دوران خضدار کے مرکزی اسپتال میں ہنگامی صورتِ حال نافذ کر دی گئی، جس پر مکمل طور پر فوج کا کنٹرول تھا۔ عام شہریوں کو اسپتال میں داخل ہونے یا معلومات حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی گئی، جس کے باعث شکوک و شبہات میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔
قابلِ غور بات یہ ہے کہ اب تک کسی اسکول، طالب علم یا متاثرہ خاندان کی جانب سے نہ کوئی بیان سامنے آیا، نہ کوئی احتجاج ہوا، اور نہ ہی کسی قسم کی تصدیق کی گئی۔ اگر واقعی بچے اس حملے کا نشانہ بنتے، تو پنجابی ریاست اس موقع کو کبھی ضائع نہ جانے دیتی اور بین الاقوامی سطح پر بلوچ مزاحمت کو بدنام کرنے کے لیے بھرپور انداز میں استعمال کرتی۔
اس کے برعکس، واقعے کے فوراً بعد پنجابی وزیرِاعظم اور فوجی سربراہ کا اچانک کوئٹہ پہنچنا اور اسپتال میں بعض مبینہ زخمیوں کی عیادت کرنا، جس کی تصاویر اور ویڈیوز کو ریاستی ذرائع ابلاغ پر وسیع پیمانے پر نشر کیا گیا، اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ نشانہ پنجابی فوجی قافلہ تھا، اور حملہ نہایت کامیابی سے کیا گیا۔ تاہم، اس حقیقت پر پردہ ڈالنے اور اپنی عسکری ناکامی کو چھپانے کے لیے اس واقعے کو اسکول کے بچوں پر حملہ قرار دے کر ایک جھوٹا بیانیہ ترتیب دیا گیا۔یہ تمام تر کوششیں دراصل ایک منظم پروپیگنڈا حکمتِ عملی کا حصہ ہیں، جن کا مقصد بلوچستان کی آزادی کی تحریک کو کمزور کرنا، اسے انڈیا کی پشت پناہی یافتہ ظاہر کرنا، اور عالمی سطح پر اسے دہشت گردی سے منسلک کرنا ہے۔ لیکن سوشل میڈیا اور آزاد ذرائع سے سامنے آنے والا غیر سرکاری مواد ان ریاستی دعوؤں کی نفی کرتا ہے اور اس بیانیے کی ساکھ کو مشکوک بنا دیتا ہے۔
یہ حقیقت بھی قابلِ توجہ ہے کہ پنجابی ریاست اور اس کی عسکری قیادت ماضی میں متعدد مواقع پر اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ بلوچ سرمچاروں کی جانب سے جب بھی کسی ریاستی قافلے یا تنصیب کو کامیابی سے نشانہ بنایا گیا، تو ردعمل میں یا تو ہلاک ہونے والے فوجیوں کی تعداد کو دانستہ کم ظاہر کیا گیا، یا ان کارروائیوں کو عام شہریوں پر بزدلانہ حملے قرار دے کر عوامی ہمدردیاں حاصل کرنے کی سعی کی گئی یا تو عوامی سطح پر اپنی خفت مٹانے کی کوشش کی گئی ہے۔
کئی بار دیکھا گیا ہے کہ جب بلوچستان میں مسلح مزاحمت اپنے عروج پر ہو اور بلوچ سرمچار ریاستی افواج کو کاری ضرب لگائیں، اور ریاستی اداروں کو سنجیدہ نقصان پہنچتا ہے، تو ایسی صورتحال میں پنجابی ریاست اکثر ملکی سطح پر سیاسی انتشار پیدا کرنے کی راہ اختیار کرتی ہے تاکہ میڈیا اور عوام کی توجہ اصل مسئلے یعنی بلوچستان کی صورتِ حال سے ہٹائی جا سکے۔
اس ضمن میں ایک مستقل اور خطرناک حربہ یہ بھی رہا ہے کہ ریاستی انٹیلیجنس اداروں کی پشت پناہی سے سرگرم بعض نام نہاد مذہبی یا دہشت گرد گروہوں کے ذریعے عام شہریوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور یوں ایک طرف انسانی المیہ جنم پاتا ہے، تو دوسری جانب اس کا الزام براہِ راست بلوچ مزاحمت کاروں پر ڈال کر تحریکِ آزادی کو دہشت گردی کے قالب میں پیش کرنے اور بدنام کرنے کی منظم کوشش کی جاتی رہی ہے۔
اس کی ایک نمایاں مثال 15 جون 2013 کو زیارت میں واقع نام نہاد قائداعظم ریزیڈنسی پر بلوچ سرمچاروں کا حملہ ہے، جسے نہایت سوچ سمجھ کر اور حکمتِ عملی کے ساتھ نشانہ بنایا گیا، اور اسے مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا۔ اس حملے کا مقصد نوآبادیاتی ورثے کی علامت کو چیلنج کرنا اور اسے مٹانا تھا۔ تاہم، اس کارروائی کی گونج اور اس کے سیاسی و نظریاتی اثرات کو کم کرنے کے لیے اسی دن، 15 جون 2013 کو، پنجابی ریاست کی طرف سے کوئٹہ میں SBK یونیورسٹی کی طالبات کی بس کو ایک خودکش دھماکے کا نشانہ بنایا گیا، اور بعد ازاں بولان میڈیکل کالج اسپتال پر بھی حملہ کیا گیا، جس سے ریاست کو موقع ملا کہ وہ اصل حملے سے توجہ ہٹا کر ایک نیا بیانیہ قائم کرے۔ اسی طرح ہزارہ کمیونٹی کو بارہا حملوں کا نشانہ بنا کر فرقہ واریت کو ابھار کر ہوا دی گئی اور بلوچ آزادی کی تحریک کو عالمی سطح پر دبانے کی کوشش کی گئی۔
یہ تمام اقدامات ریاستی حکمتِ عملی کا حصہ ہیں، جن کا مقصد ایک طرف اپنی عسکری ناکامیوں پر پردہ ڈالنا اور دوسری جانب بلوچ مزاحمت کاروں کی کامیابیوں کو چھپانا اور تحریکِ آزادی کو عوامی و بین الاقوامی سطح پر بدنام کرنا ہے۔ تاہم، سوشل میڈیا، زمینی حقائق اور آزاد ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات اس ریاستی بیانیے کو مسلسل چیلنج کرتی رہی ہیں، اور وقت کے ساتھ ساتھ ایک باشعور طبقہ ان پروپیگنڈا ہتھکنڈوں کو بخوبی سمجھنے لگا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں