سچائی کا قتل – ٹی بی پی اداریہ

85

سچائی کا قتل

ٹی بی پی اداریہ

بلوچستان دنیا کے ان خطوں میں شامل ہے جہاں بین الاقوامی صحافیوں کے داخلے پر غیر اعلانیہ پابندی عائد ہے، اور اگر مقامی صحافی ریاستی بیانیے کی ترویج سے گریز کریں تو اُنہیں جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل جیسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ریاستی جبر کی سچائی دنیا تک پہنچانے کی پاداش میں اب تک بلوچستان میں بیالیس صحافی قتل کیے جا چکے ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بلوچستان کو “صحافیوں کا قبرستان” قرار دیا ہے، جبکہ 2014 میں رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز (RSF) نے قلات ڈویژن کے صدر مقام، خضدار کو دنیا کے ان دس شہروں میں شامل کیا جہاں صحافت سب سے زیادہ خطرناک پیشہ بن چکا ہے۔ پاکستان مجموعی طور پر صحافیوں کے لیے ایک خطرناک ملک ضرور ہے، مگر بلوچستان ان کے لیے عرصۂ دراز سے موت کا میدان بن چکا ہے۔ یہاں ریاستی مظالم کو بے نقاب کرنا اکثر صحافیوں کی جان کا دشمن بن جاتا ہے۔

پاکستان کے مرکزی صحافتی ادارے ریاستی دباؤ کے باعث بلوچستان کی جنگ زدہ فضا، انسانی حقوق کی پامالیوں، اور جبری گمشدگیوں جیسے موضوعات پر کوریج کرنے سے قاصر ہیں۔ بلوچستان سے متعلق یکطرفہ اور مسخ شدہ بیانیہ ہی دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تاکہ ریاستی ادارے بلوچ قومی تحریک کو بیرونی سازش کا نتیجہ قرار دے کر اس کی سیاسی حیثیت کو مسخ کر سکیں۔

بلوچستان میں آزادی کی جنگ دو دہائیوں سے زائد عرصے سے جاری ہے۔ حالیہ برسوں میں بلوچ مزاحمتکاروں کی کارروائیوں میں جس شدت اور حکمتِ عملی کا عنصر شامل ہوا ہے، اسی کے ردعمل میں ریاست نے بھی انسداد کی پالیسیوں کو مزید سخت کر دیا ہے۔ نتیجتاً بلوچستان کے کئی اضلاع میں عوام براہِ راست ریاستی جبر کے زیرِ اثر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ایسے میں صحافت کی اولین ذمہ داری یہی ہونی چاہیے کہ وہ ان مظالم کو بے نقاب کرے، مگر بدقسمتی سے پاکستان کے میڈیا ادارے سچ کی جگہ ریاستی بیانیے کو فروغ دے کر خود بھی جبر کا حصہ بن چکے ہیں۔