کوئٹہ: ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر قیادت کی گرفتاریوں کے خلاف احتجاج

15

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماء و انسانی حقوق کی علمبردار ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ و ساتھیوں کی گرفتاری اور جبری گمشدگیوں کے خلاف کوئٹہ میں احتجاجی ریلی و مظاہرہ کیا گیا ۔

‏یہ مظاہرہ بی وائی سی کے مرکزی کال پر کیا گیا ، جس میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شریک رہی ۔مظاہرین ہاتھوں میں جبری لاپتہ افراد کی تصویریں ، بی وائی سی کے زیر حراست قیادت اور بینرز اٹھا کر بلوچ نسل کشی کے خلاف نعرہ بازی کرتے ہوئے عالمی اداروں سے بلوچستان جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نوٹس لینا کا مطالبہ کیا ۔

بی وائی سی کے مطابق بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے آج ایک پرامن احتجاج کی کال دیا گیا تھا، احتجاج شاہوانی اسٹیڈیم کے قریب کھلے میدان میں ہونی تھی ، لیکن ریاست پاکستان کے غنڈے جن میں حکومت بلوچستان، کوئٹہ انتظامیہ، سی ٹی ڈی اور پولیس نے پہلے ہی سے فیصلہ کیا ہے کہ بلوچ قوم اور BYC کو احتجاج کی اجازت نہیں ہے ، انہوں نے کہاکہ اس ریاست نے بلوچ قوم کے لیے ایک الگ ہی قانون بنایا ہے۔ کہ جو بھی انسان ظلم کے خلاف بولے اور حق کے لیے آواز اٹھانا چاہے، اسکو گرفتار کرو، مارو، لاپتہ کرو اور پھر لاش پھینک دو۔ دوسری طرف تمام سیاسی جماعتوں اور ریاستی وفاداروں کو ہر جگہ جلسے جلوس کی کھلی چھوٹ ہے۔

انہوں نے کہاکہ کوئٹہ کے ریڈ زون کے قریب فلسطین اور غزہ کے لیے جلوس کی اجازت ہے لیکن بلوچ کو ایک میدان میں بھی احتجاج کرنے کی اجازت نہیں۔ یہ دہرا معیار اس ریاست نے صرف بلوچ قوم کی آواز دبانے کے لیے بنایا ہے۔

انہوں نے کہاکہ پہلے اس ریاست اور اسکے وفادار حکومت کا یہ دعوی تھا کہ BYC روڈ بند کرکے عوام کو تکلیف میں ڈالتی ہے۔ کھٹ پتلی حکومت اپنی میڈیا اور دنیا کو بتاتی ہے کہ BYC مقررہ جگہوں پہ احتجاج کر سکتی ہے جن میں پریس کلب اور شاہوانی اسٹیڈیم انہوں نے خود مقرر کیا ہے۔ لیکن انکے منافقت کی انتہا تو دیکھیں کہ وہاں بھی پہنچ کر احتجاج کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی ۔ اب جبکہ ہم کوئی روڈ بند نہیں کر رہے لیکن پھر بھی پولیس احتجاج کی جگہ پہلے سے بھاری تعداد میں پہنچ کر لوگوں کو گرفتار کیا گیا ۔

بی وائی سی کے مطابق اب تک ایک درجن سے زاہد لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ پورے سریاب میں ہر جگہ پولیس کا گشت جاری ہے اور بلوچستان یونیورسٹی میں سیکڑوں پولیس نفری، بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ تیار کھڑے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ بلوچ قوم کو سوچنا ہوگا کہ کیوں اسے اپنے ہی سرزمین پر احتجاج کا حق نہیں، کیوں یہ ریاست اور اسکے ادارے بلوچ کو انسان سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اسکے لیے سب کو مزاحمت کرنا ہوگا اور اس ریاست کے ہر جرم کو دنیا کے سامنے لانا ہوگا۔ جب ہر زبان پہ سوال ہوگا تو ریاست کتنوں کو خاموش کرے گی۔ ہم اس غیر انسانی، غیر قانونی اور کالونئیل نظام کے خلاف آواز اٹھاتے رہیں گے۔