پی کے کے غیر مسلح، اسباب، سبق اور مستقبل – ہارون بلوچ

293

پی کے کے غیر مسلح، اسباب، سبق اور مستقبل

تحریر: ہارون بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کوئی بھی تحریک بلا کسی مقصد، ناانصافی، تاریخی جبر اور حقیقت، جبری قبضہ، اور بلاجواز شروع نہیں ہوتی بلکہ ہر تحریک کی بنیاد کسی ایک خاص مقصد، انصاف کی تلاش، آزادی اور دیگر درجن بھر وجوہات کی بنیاد پر اٹھتا ہے البتہ ضروری نہیں کہ دنیا میں جتنی تحریکیں شروع ہوتی ہیں وہ ہر صورت کامیابی حاصل کرے، یا ہر تحریک شروع ہونے کے بعد کامیاب ہوا ہے، کامیابی کا تعلق تحریک کی بنیاد، ظالم اور جابر، قاتل اور مظلوم سے نہیں ہوتا بلکہ اس کا تعلق دونوں فریقوں کے درمیان جنگ کے عین اصولوں کے مطابق چلتے ہوئے، اپنے دشمن سے دو قدم آگے رہتے ہوئے، اس کو شکست سے دوچار کرنے کے فلسفے میں شامل ہوتا ہے، یقیناً آپ کا بیانیہ، طریقہ کار، جدوجہد کے مقاصد لوگوں کی ہمدردیاں اور اخلاقی سپورٹ حاصل کرنے کیلئے نہایت اہم ہوں گے البتہ عوامی سپورٹ، حمایت اور ہمدردیاں بھی جیت کے یقینی کا سبب نہیں بن سکتے ہیں جس کی مثال حالیہ یوکرین اور روس جنگ میں یوکرین کے ساتھ دنیا بھر کی ہمدردیاں ہونے کے باوجود روس کی کامیابی اور پیش قدمی کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔

آپ موجودہ حقیقت کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے حریف کے مقابلے میں زمین پر کس طرح ڈیلیور کر سکتے ہیں یہی کامیابی کی بنیاد بنتی ہے۔ گوریلا موؤمنٹ دنیا بھر میں سینکڑوں کی تعداد میں اٹھے ہیں اور سینکڑوں کے حساب میں ناکام بھی ہوئے ہیں اور درجنوں کے تعداد ان مزاحمتوں کو کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے، تو کسی جنگ کا غیر مسلح ہونے نا جنگ کے فلسفے اور کامیابی کے عمل کو جھٹلا سکتا ہے اور نا کامیابی کا عمل شکست کے فلسفے کو توڑ سکتا ہے اس لیے کامیابی اور ناکامی کا تعلق ہر تحریک کی اپنی تاریخی اور زمینی حقائق کی بنیاد پر کھینچی گئی لکیر اور حکمت و عمل سے منحصر ہے۔

حالیہ دنوں جب پی کے کے نے غیر مسلح ہونے کا فیصلہ لیا تو پاکستان بھر میں ریاستی دانشوروں کے طبقے نے ایک مباحثے کا آغاز کیا جس میں بلوچ تحریک کے مستقبل کے بارے میں یہی تاثرات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی البتہ تاریخی اور تھیورٹیکل بنیاد پر دیکھا جائے تو کرد تحریک کو مدنظر رکھ کر بہت سی چیزیں بحث میں لانے کے قابل ہیں۔ کرد تحریک اپنے ارتقائی مرحلے سے لیکر اب تک کہی حوالوں سے تنظیم سازی، فیصلہ سازی، طریقہ کار، قیادت، اور دشمن میں ہم سے کافی چیزیں الگ اور مماثلت نہیں رکھتی ہیں بلکہ دنیا میں کوئی بھی تحریک، جہد، یا ریاستی آپریشن یا کاؤنٹر انسرجنسی ایک نہیں رہتی، امریکہ دنیا بھر میں کاؤنٹر انسرجنسی کا باپ سمجھا جاتا ہے لیکن ویتنام، افغانستان اور عراق میں انہیں منہ کی مار پڑی اور شدید ناکامیوں کا سامنا رہا، اسی طرح اسرائیل ایک طاقت ور ریاست اور اپنے خلاف پیدا ہونے والے ہر تھریٹ کا خاتمہ کرنے میں کوئی دیر نہیں لگاتا لیکن حزب اللہ اسرائیلی غضب کے سامنے ایک مضبوط چٹان کی طرح کھڑا رہا ہے اور اسے شدید نقصانات سے دوچار کرتا آ رہا ہے۔

مسلح تحریکیں کئی جگہ ناکام ہوئی تو کئی جگہ کامیاب ہوئیں، یعنی کامیابی اور ناکامی کا تعلق مسلح جنگ، نظریے، فکر اور سوچ سے نہیں ہوتا کہ دنیا بھر میں جتنی بھی تحریکیں چلتی ہیں انہیں ہر حال میں کامیاب ہونا ہے، ناکام تحریکیں اس وقت ہزاروں کی تعداد میں ہونگی، اسی دہائی میں جب تامل ٹائیگر کا خاتمہ ہوا، آئرش ریبلکن آرمی غیر مسلح ہوئی، فارس جنگ نے سیزفائر کا فیصلہ کیا تو دوسری جانب اسی صدی میں ہمیں بلوچ قومی تحریک کی شروعات اور پھر اس کے ایک عظیم قوت میں تبدیل ہوتے دیکھا گیا، اسی طرح طالبان نے اسی صدی میں افغانستان سے امریکہ اور نیٹو کو بے دخل کر دیا، ایچ ٹی ایس نے شام پر قبضہ کیا جبکہ یوکرین کے لوہانسک اور ڈونباس میں روس کی مدت سے باغیوں نے یوکرینی فوج کو مفلوج کر دیا، افریکہ کے کئی ممالک میں اس وقت مسلح تنظیمیں اہم علاقے اپنے کنٹرول میں کر چکے ہیں، یمن میں ہوثی باغیوں کا بیشتر حصہ پر قبضہ ہے، اسی صدی میں ہم نے حزب اللہ کو ایک ناقابل تسخیر طاقت کے دور پر ابھرتا دیکھا جو آج ایک غیر ریاستی عناصر ہوکر بھی ریاستی قوت کی صلاحیت رکھتی ہے اور اسرائیل جیسے طاقت کو ایک طرف شدید نقصانات پہنچا رہی ہے تو دوسری جانب انہوں نے لبنان پر اپنا غیر اعلانیہ قبضہ بنا رکھا ہے اور دو مرتبہ لبنان پر اسرائیلی قبضے کو ناکام بنا دیا ہے۔

کہنے کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ کسی بھی تحریک، جنگ، یا بغاوت کی کامیابی کا تعلق صرف مسلح ہونے میں نہیں ہوتا بلکہ اس بات پر منحصر کرتا ہے کہ وہ تحریک جنگ کے rules of the engagement کے مطابق کس طرح کھیلتا اور اپنی فتح یقینی بنانے پر کام کرتا ہے۔ دنیا میں تحریکیں اس طرح نہیں چلتے اور کامیاب ہوتے کہ ہم سے پہلے کیا یہ ہوا ہے جو ہم کر رہے ہیں، اگر ویتنامی یہی سوچتے کہ امریکہ ایک طاقت ہے اور دنیا میں کئی تحریکیں اس کے خلاف ناکام ہوئے ہیں تو وہ آج تاریخ میں امریکہ کو شکست دینے والی قوت نہیں بنتی، اسی طرح اگر طالبان نیٹو جیسے قوت کو سوچتے اور تحریک چلانے سے گریز کرتے تو آج وہ فتح یاب نہیں ہوتے، البتہ ہر تحریک کی کامیابی اور ناکامی کے اپنے معیار اور ناکامی کے اسباب ہوتے ہیں۔

اس مضمون میں ہم باریک بینی سے کرد تحریک کی غیر مسلح ہونے کے سفر کو سمجھنے اور اپنی بےعلمی کی حد تک بیان کرنے کی کوشش کرینگےاور اس کا مماثلہ بلوچ تحریک سے کرنے کی کوشش کرینگے کہ کیوں جہاں بلوچ گزشتہ دو دہائیوں میں اپنی تحریک میں ایک شدت، جدت اور طاقت بنانے میں کامیاب ہوئے وہی کرد ایک بہتر پوزیشن سے آج غیر مسلح ہونے کا سفر طے کر چکا ہے۔

اگر کرد تحریک کی بنیاد پر بات کی جائے تو یہ ایسے چند نوجوانوں کی کوششوں سے شروع ہوا جو ایک طرف کردستان کے مسئلے کو لیکر اپنے ذہن میں سوالات رکھتے تھے اور دوسری جانب ساؤتھ یونین کی ابھرتی طاقت، دنیا بھر میں قابض ریاستوں کے خلاف جاری تحریکیں، اور جبری قبضوں کے خلاف دنیا بھر میں مسلح تحریکوں کی کامیابی، خاص کر ویتنام میں امریکہ کی شکست نے کئی ممالک کے نوجوانوں میں یہ جذبہ پیدا کیا کہ وہ اپنے سرزمین پر غیر طاقت کے قبضے خلاف مسلح جنگ کا آغاز کرتے ہوئے اسے ناکام بنائیں، کرد تحریک عبداللہ اوکلان کی سربراہی میں بھی ایک ایسی نیت اور فکر کی بنیاد سے شروع ہوا، تحریک نظریاتی بنیادوں پر مارکسز اور لینزم سے متاثر تھا، کرد چونکہ ایک دہائی سے ترکی کے ریاستی جبر کا سامنا کر رہے تھے، ان کی شناخت ان سے چھین لی جا رہی تھی، انہیں کرد شناخت سے محروم کرتے ہوئے ترک بنایا جا رہا تھا جس کے خلاف جب اوکلان نے مارکسزم نظریات سے متاثر ہوکر مسلح جنگ کا آغاز کیا تو بقول اوکلان مجھے خود اندازہ نہیں تھا اور نہ ہی ہماری کوئی ایسی تیاری تھی کہ اچانک ہزاروں کی تعداد میں کرد ہمارے ارد گرد جمع ہوئے اور کردستان کی آزادی کیلئے کمر بستہ ہوئے۔ اوکلان کے اپنے خیال میں، جب ہزاروں کی تعداد میں لوگ ہمارے ساتھ جنگ میں آئے تو ہمیں خود اندازہ نہیں تھا اور نہ ہی ہماری کوئی ایسی تیاری تھی جو اس ابھار کو منظم انداز میں کامیابی کی طرف لے جائیں۔

کرد تحریک نے اپنی جدوجہد کے آغاز میں ہی تحریک کا انحصار اوکلان پر رکھا، گوکہ تاریخی حقیقت پر بات کی جائے تو کوئی بھی تحریک جب کسی ایک فرد سے وابستہ رہتی ہے، یا اس کے زیر اثر رہتے ہوئے کامیابی و ناکامی کا دارومدار رکھتی ہے تو اکثر ایسی تحریکیں ناکامیوں سے دوچار ہوئے ہیں جس کی مثال اسی صدی میں ہمیں تامل ٹائیگر کی صورت میں دیکھنے کو ملا جب ان کے سربراہ پرابھاکرن کی موت ہوئی تو تحریک اس کے ساتھ ختم ہوئی، اس لیے موجودہ تحریکیں یا ریاست اکثر و بیشتر بہتر اور منظم اداروں کی بنیاد پر خود کو استوار کرتے ہیں، جس کی مثال حزب اللہ کی شکل میں ہمارے یہاں موجود ہے کہ ان کے سیکرٹری جنرل حسن نصراللہ کی موت کے باوجود وہ اسرائیلی طاقت کے سامنے ڈٹے رہیں اور تحریک کو جاری رکھا ہوا ہے۔

اچھے اور بہترین ریاست اور ڈیموکریسی دو سے زائد مرتبہ کسی شخص کو ملک کا سربراہ ہونے کی اجازت نہیں دیتے جس کی مثال امریکہ میں ہمیں دیکھنے کو ملتی ہے جو اس بات کو یقینی بنانے کی ایک کوشش ہے کہ ریاست کا انحصار کسی ایک شخص پر نہ ہو، اسی طرح اگر کسی تحریک کا انحصار بھی کسی ایک شخص پر ہوا تو اسے کسی بھی وقت ناکامی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس کی بلوچ تحریک میں گزشتہ چار انسرجنسیز کی ناکامی کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے کہ کبھی تحریک کا تعلق آغا عبدالکریم سے تھا تو کبھی اس کا تعلق بابو نوروز اور انہی کے ساتھ ان تحریکوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، اگر کرد تحریک کی ناکامی کا ایک جائزہ لیا جائے تو اس میں یقیناً اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ انہوں نے عبداللہ اوکلان کو صرف لیڈر کے طور پر نہیں بلکہ کسی بھگوان یا مقدس شخص کے صورت میں دیکھا، گرفتاری کے بعد بھی اس کو مسلسل فالو کیا گیا، انہیں اپنا نظریاتی اور تنظیمی رہنما رکھا گیا، جس سے کرد تحریک کو اندرونی، تنظیم سازی، اداراتی اور نظریاتی بنیاد پر شدید نقصانات کا سامنا کرنا پڑا، گرفتاری کے بعد بھی ترکی کی جانب سے کرد لیڈر کو موقع دیا گیا کہ وہ ایک ایسے نظریے کی پرچار کریں( democratic confederalism ) جو بنیادی طور پر ایک ایسی تحریک جو شناخت اور قومی آزادی کی بنیاد پر رکھا ہے، اس کے مکمل خلاف ہے۔ اوکلان کی اپنی جدوجہد سے نظریاتی اعلانیہ دوری کے باوجود، امریکہ جیسے نظام کی پرچار کے باوجود، انہیں رہنما کے طور پر ہمیشہ ظاہر کیا گیا، جنہوں نے نظریے اور تھیوری کی تلاش میں کرد جنگ کو ڈی مورلائز کرانے، نظریاتی کنفیوژن کا شکار کرنے، اور جدوجہد کے فکری راہ میں تضاد پیدا کرنے کا سبب بنا۔

اوکلان اپنی کتاب prison writing میں جہاں اپنی گرفتاری کا روداد سناتے ہیں وہی انہوں نے اس کتاب میں چند نظریاتی اور تاریخی حقیقت بھی آشکار کیے ہیں جو یقیناً آج ان کی ناکامی یا نام نہاد کامیابی کے اسباب میں تناظر میں دیکھے جاسکتے ہیں جس کا وہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ تحریک نے اپنے بنیادی مقاصد حاصل کی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ انہوں نے بنیادی طور پر کرد شناخت اور کلچر کی حفاظت کیلئے مزاحمت کا آغاز کیا یہ اس کی وجہ سے مزاحمت نے کرد سماج میں اپنی جڑیں قائم کیں۔ وہ کرد ریاست کی بحالی سے زیادہ کرد شناخت پر زور دیتے ہیں اور یہی تاریخی طور پر کرد ریاست کی بحالی کی ناکامی کا ایک سبب بھی بنا رہا۔

اوکلان کے خیال میں کرد موومنٹ کی بنیاد کسی نہ کسی حد تک ترک ریاست کی جبر کی وجہ سے پیدا ہوا، یعنی اگر ترکی ایک فیڈرل ریاست کے طور پر کرد شناخت کو قبول کرتا اور اس شناخت کے خلاف جبر کا سہارہ نہ لیتا تو شاید کرد تحریک کی بنیاد ہی نہ ہوتی، وہ سرے سے اس بات پر زیادہ یقین رکھتے ہیں کہ کرد شناخت ہمیشہ ایک اہم مسئلہ رہا ہے، جس کی وجہ سے جب پی کے کے کی بنیاد 1978 میں رکھی گئی تو اس کی نظریاتی احساس کرد ریاست حاصل کرنے سے زیادہ کرد شناخت کو اجاگر کرنے اور اسے زندہ رکھنے کی کوشش میں تھا۔ اگر اوکلان کی نظریاتی اور فلاسفی کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو بنیاد سے کرد شناخت کے حوالے سے زیادہ حساس رہا ہے، اس کی وجہ سے انہوں نے اپنی کوششوں میں زیادہ کرد شناخت کو محفوظ کرنے میں گزارا جس کی واضح مثال اس کی تحاریر میں ہمیں کرد ریاست کے بجائے کرد شناخت پر زیادہ دور دینے کی صورت میں دیکھنے کو ملتی ہے لیکن حقیقی بنیاد پر دیکھا جائے تو کسی بھی قوم کی شناخت کا تعلق ریاست سے وابستہ ہوتا ہے، کوئی بھی قوم بغیر ریاست کی اپنی قومی شناخت کو محفوظ نہیں رکھ سکتا جس کی مثال تاریخ سے بھری پڑی ہے۔

کرد تحریک کی اس نظریاتی تضاد کی وجہ سے کرد تحریک کی سیاسی اور مسلح ڈھانچہ بھی ایسے تیار کیا گیا یا تاریخی طور پر ایسے سامنے آیا جس میں ریاست کی پیدائش، اس کی حاصل کرنے کی خواہش اور دشمن کو شکست دینے کے بجائے مسلسل مزاحمت اور شناخت کی حفاظت کیلئے مختلف طریقہ کار کی صورت میں ہمیں دیکھنے کو ملا۔ جہاں کرد موومنٹ کو ترکی میں منظم کرتے ہوئے اسے ریاست کے خلاف ایک طاقت ور قوت کے طور پر لاتے ہوئے آزاد کرد ریاست کیلئے کام کرنے پر زور دینا تھا، پی کے کے نے غیر ضروری بنیادوں پر عراق، ایران، شام جبکہ بلخصوص عراق میں زیادہ زور لگانے، دنیا بھر میں کرد شناخت کی بنیاد پر لوگوں کو اکھٹا کرنے، کرد شناخت کو اجاگر کرنے، دیگر ریاستوں کے اندرونی معاملات میں جاتے ہوئے کرد مسئلے کو لیکر مسائل پیدا کرنے اور خطے بھر میں اپنے خلاف ہر طرف دشمن پیدا کرنے جیسے ناکام پالیسیوں کی بنیاد رکھی جس کی وجہ سے وہ جنگ جیتنے کے بنیادی فلسفے یعنی rules of the engagement کے فلسفے کے برخلاف کام کیا۔ اس میں پی کے کے کو شاید کرد شناخت کو دنیا بھر میں اجاگر کرنے میں کامیابی ملی لیکن دوسری جانب انہوں نے اس فلسفے اور عملی سرگرمیوں کی وجہ سے ایک ریاست حاصل کرنے کی بنیادی تحریک سے کسی نہ کسی حد تک پیچھے ہٹ گئے۔

پی کے کے نے ترکی ریاست کے خلاف مسلح مزاحمت کو مضبوط کرنے کے بجائے عراق میں مختلف فوجی اور سیاسی دھڑے بناکر انہیں ملوث ہوکر اپنی قیمتی انرجی اور طاقت یہیں ضائع کیا، حتیٰ کہ آخر میں عراق میں ہی پی کے کے کو اپنے مختلف دھڑوں میں خانہ جنگی کا سامنا رہا جبکہ عراق میں وائی پی جے، وائی پی جی جیسے تنظیمیں بحال کرنے، ایران میں پی جے اے کے جیسے تنظیموں پر زور دیتے ہوئے وہ اپنے بنیادی سرگرمیوں سے دور ہوتے گئے، جہاں ترکی ایک طرف کاؤنٹر انسرجنسی کے حقیقی طریقہ کار کو استعمال میں لاتے ہوئے دنیا بھر میں کرد موؤمنٹ کے خلاف ڈیپلومیٹک چینلز کا استعمال، اپنی پالیسیوں میں سختی اور نئے طریقہ کار، ترکی سے کرد جنگجوؤں کو باہر دھکیلنے، کرد گوریلا سپاہیوں کے خلاف مختلف پالیسیوں کا قیام عمل میں لا رہی تھی وہی کرد موومنٹ کے سرکردہ سربراہ اپنی گرفتاری کے بعد سے یا کسی حد تک گرفتاری سے پہلے تحریک کی نظریاتی تضادات کے پیچھے پڑا رہا، گوکہ نظریاتی ڈسکیشن کسی بھی تحریک کی بنیاد ہوتی ہے البتہ جنگ کے درمیان، دشمن کی سخت جبر کے وقت جب آپ کی قیادت نظریاتی تضادات، تاریخی حقیقت اور جدوجہد کے طریقہ کار، اپنے عمل پر تضادات بیان کرے گا تو اس کی اختتام اس سے بہتر نہیں ہو سکتا ہے۔

گوکہ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اپنی تنظیمی ساخت اور پروگرام کو مختلف شکل اور طریقے کار کے تحت پھیلانے میں کوئی عرج نہیں اور اس کا تنظیم کو مختلف فائدے بھی مل سکتے ہیں لیکن اگر آپ کی گرفت اندرونی طور پر مضبوط نہیں، یعنی ترکی کے کرد علاقوں پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے یا آزادی حاصل کرنے بعد اگر پی کے کے پھیلایا جاتا یا اس کے عالمی تصورات کو دیگر علاقوں میں پھیلانے کی کوشش ہوتی تو اس کے بہتر نتیجے نکل سکتے تھے البتہ مرکزیت قائم کیے بغیر اور طاقت سے محروم ہوکر جب آپ سسٹم کو پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں تو اس کا نتیجہ یہی کچھ نکلتا ہے جو کرد معاملے میں ہمارے سامنے آیا۔

اوکلان نے ہمیشہ کرد مسئلے پر ایک ماڈریٹ رویہ رکھنے کی کوشش کی ہے اور حالیہ دنوں میں کرد ریاست کی آزادی یا بحالی سے زیادہ انہوں نے ترکی کے ریاستی نظام میں ماڈرن اور جمہوری رویوں کی پیدائش پر زور دیا ہے اور پی کے کے کو غیر مسلح کرنے کا بنیادی فلسفہ بھی یہی دیا ہے کہ آنے والے دنوں میں جمہوری جدوجہد اور ترکی ریاست کے اندر کرد شناخت کی حفاظت کے حوالے سے نظام میں جمہوری تبدیلیاں لائے جائیں گے البتہ میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں ناکام تحریکوں اور ان کے ڈیمانڈز کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ہے، ترکی جب ان کے ساتھ شدید جنگ میں تھا تب بھی ان کے اس طرح کے ڈیمانڈز قبول کرنے کیلئے راضی نہیں تھا کیونکہ وہ ہمیشہ ایک برتر طاقت رہی ہے اس جنگ میں اور جب انہوں نے طاقت اور اپنی حکمت سے اس تحریک کا خاتمہ کیا ہے تو مجھے نہیں لگتا کہ اب اسے کوئی خاص حیثیت حاصل ہوگی، اپنے حالیہ تقریر میں بھی انہوں نے پی کے کے کو ایک دہشتگرد تنظیم سے مخاطب کرتے ہوئے اس کے غیر مسلح ہونے کو خوش آمد کیا جبکہ ترکی میں اکثر سیاس پارٹی اور عوام پی کے کے کو ایک دہشتگرد ریاست کے طور پر دیکھتے ہیں اور ان کے خلاف شدید نفرت رکھتے ہیں، جب وہی تبدیلیاں جنگ کے دوران ترکی لانے کیلئے تیار نہیں تھا تو غیر مشروط سرینڈر ہونے پر ترکی ان تبدیلیوں کیلئے کیسے راضی ہو سکتا ہے؟ البتہ اوکلان کی رائٹنگ بطور تھیوری اور نظریاتی پہلو کے طور پر پڑھا جائے گا لیکن ترکی کی موجودہ ریاستی ڈھانچے میں ان کی کوئی خاص حیثیت نہیں رہے گی، اتحادی دور کی بات انہیں پارلیمنٹ میں بیٹھنے کا بھی اختیار نہیں دیا جائے گا بلکہ کرد علاقوں میں خود اب لوگ پی کے کے بجائے متبادل قوتوں کی جانب دیکھیں گے اور یہ متبادل لیڈر اور قوتیں کس طرح ہونگی یہ آنے والے وقت میں پتا لگ سکتا ہے۔

اگر طاقت کے فسلفے پر بات کی جائے۔ طاقت کا فلسفہ غلط اور سہی، سچ اور جھوٹ، کے تحت نہیں ہوتا بلکہ اس کی بنیاد طاقت کے عالمی اصولوں کے عین پلے بک کے مطابق لڑنے کا ہوتا ہے، فلسطیوں کی تحریک جتنی بھی جائز ہو، انہوں نے جتنے بھی قربانیوں دی ہوں لیکن جب تک وہ اسرائیل سے زیادہ طاقت ور، چالاک، حکمت ساز، اور ان سے دو قدم آگے نہیں رہینگے اسرائیلی اسی طرح ان کا خاتمہ کرتے رہیں گے۔

اگر ترکی اور پی کے کے، کی لڑائی کا جائزہ لیں تو ترکی کی کاؤنٹر انسرجنسی، پلے بک کے مطابق کھیلنے، فاکس کاؤنٹر انسرجنسی پر کام کرنے، کے معاملے میں پی کے کے سے ہمیشہ ایک بہتر و معتبر رہا ہے۔ عالمی ڈیپلومیسی سے لیکر علاقائی و اندرونی لڑائی تک، پی کے کے اور کرد تحریک کے خلاف focused کاؤنٹر انسرجنسی تک انہوں نے اپنی پالیسیوں میں پی کے کے سے ہمیشہ آگے رہنے کی سبقت پائی ہے جس کی وجہ سے انہیں کامیابی ملی ہے۔ پی کے کے اپنے ماڈریٹ خیالات کی وجہ سے یورپ میں کافی مشہور رہا ہے لیکن ترکی نے گزشتہ چند وقت میں خود کو ایک انتہائی ماڈریٹ اسٹیٹ میں تبدیل کر دیا تھا، انسانی اور سماجی آزادیاں جیسے اہم اور بنیادی ضرورتوں اور ڈھانچے پر کافی کامیابی سے کام کیا، جس کی وجہ سے یورپ کا سپورٹ حاصل کرنے میں بھی کرد ترکی سے زیادہ کامیاب نہیں ہوئے، اسلامی ریاست، اور مسلح تحریکوں سے بھی ترکی نے ایک بہتر اور منظم تعلق قائم کیا، جس کی مثال ایچ ٹی ایس جیسے شدت پسند تنطیموں سے تعلقات کی صورت میں ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے جو ریجن کے مسلح طاقتیں رہی ہیں، اس معاملے میں بھی ترکی نے کرد کو پیچھے کیا، اسی طرح خطے کے دیگر عرب اور مسلمان ممالک کے ساتھ بھی ترکی بہتر تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔ ایسی بہت چیزیں ترکی نے کرد قیادت اور تنظیم سے بہتر کیا جو کہی حوالوں سے ان کی برتری کا سبب بنیں، قومی جذبات سے زیادہ قومی حکمت، تنظیم سازی، فیصلہ سازی، پالیسی سازی، اور بہتر طریقہ کار اور پریکٹس کامیابی کے سبب بنتے ہیں جو کرد معاملے میں ہمیں دیکھنے کو ملا، البتہ اب بھی وائے پی جی، پی وائے ڈی جیسے ادارے شام اور خطے میں فعال ہیں، جو کسی بھی وقت واپس مزاحمت کی بنیاد رکھ سکتے ہیں، البتہ اس کا تعلق پھر بھی باہری معاملات سے رہے گا۔

اگر پی کے کے کی حالیہ غیر مشروط سرینڈر کا جائزہ لیا جائے تو اس کی بنیاد بھی اکثر علاقائی و خطے کے بدلتے حالات کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے جس کا تعلق شام میں بدلتے حکومت اور زمینی حقائق ہیں۔ پی کے کے کو اس بات کی پریشانی رہی ہے اور کچھ تجزیہ نگاروں کے مطابق انہوں نے بیک ڈور چینلز سے امریکہ سمیت دیگر اتحادیوں کے ساتھ ملکر اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ ترکی حالیہ تبدیلیوں کے بعد شام میں وائے پی جے کی نیم خود مختار ریاست پر حملہ نہیں کرے گا جو کسی نہ کسی شکل میں پی کے کے کیساتھ وابستہ ہے اور اس وقت اپنے علاقوں میں مسلح ہیں، البتہ ترکی انہیں مسلح چھوڑنے کی غلطی کرے گا یا رولز آف انگیجمنٹ کے مطابق پی کے کے کو کمزور کرکے شام میں بھی حملہ آور ہوکر انہیں غیر مسلح ہونے پر مجبور کرے گا، یہ اب آنے والے دنوں کی بات ہوگی اور رپورٹس کے مطابق ترکی شام میں نیم خود مختار کرد ریاست کو غیر مسلح کرنے کی حکمت عملی پر کام کر رہا ہے تاکہ وہ مستقبل میں کسی بھی حساب سے ترکی کیلئے مسئلہ پیدا نہ کریں البتہ سرینڈر کردوں کیلئے خطے میں کوئی بھی سہولت پیدا کرتے دکھائی نہیں دیتا ہے بلکہ یہ غیر مشروط سرینڈر ان کیلئے آنے والے دنوں میں مزید مشکلات پیدا کرتا دکھائی دے رہا ہے۔

شام میں قائم نئی حکومت پہلے سے کرد معالے کو نمٹانے کیلئے تگ و دو کر رہا تھا اب جبکہ پی کے کے سرینڈر ہوئی ہے تو ان کیلئے مزید آسانیاں پیدا ہوئی ہیں یہی کچھ ایران میں بھی دیکھنے کو مل سکتا ہے لیکن اگر حقیقی بنیاد پر دیکھا جائے تو ایسے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کبھی بھی کسی بڑے ریاست کو شکست نہیں دے سکتے البتہ ان کی موجودگی بڑے طاقتوں کیلئے ایک گروپ کو استعمال کرنے کیلئے استعمال ہو سکتے ہیں، تامل ٹائیگرز کی بھی ناکامیوں کا ایک بنیادی وجہ سری لنکا کے خلاف لڑتے وقت بھارت کے تامل علاقوں میں غیر ضروری مداخلت تھا جس نے بھارت کو مجبور کیا کہ وہ اس لڑائی میں سری لنکا کا ساتھ دیں جو بعد ازاں تحریک کے خاتمے کا سبب بنا۔ کسی بھی جنگ کو جیتنے کیلئے رولز آف انگیجمنٹ انتہائی اہم رہتے ہیں اور جو فریق ان کو سمجھ کر ان کے مطابق جنگ لڑتا ہے کامیابی اسی کی ہوتی ہے۔

بلوچ یا دنیا کے کسی بھی تحریک کو کسی ایک مخصوص اور خاص تحریک سے متاثر ہونے کی ضرورت نہیں البتہ ہم ان کی غلطیوں اور کامابیوں سے سیکھ سکتے ہیں، کرد معاملے میں’ میں سمجھتا ہوں کہ ہماری غلطی یہ رہی ہے کہ ہم نے ہمیشہ کرد تحریک کو پڑا ہے لیکن ترکی کو پڑھنے سے قاصر رہے ہیں، جس طرح ترکی نے rules of engagement کیے ہیں میں سمجھتا ہوں ہمیں ترکی کو پڑھنے کی ضرورت بھی ہے، جس طرح انہوں نے ایک کٹر اسلامی ہونے کے باوجود بھی نیٹو میں اپنی شمولیت کامیابی سے بنائی ہے، وہ متاثر کن ہے۔ اسی طرح انہوں نے تحریک کی شروعات کے بعد کردوں کو ترکی کے اندر وہی آزادیاں اور اختیارات دینے کی پالیسی پر کام کیا جو دیگر شہریوں کو حاصل ہے، یہ حکمت عملی کاؤنٹر انسرجنسی کی پالیسیوں کا اہم حصہ ہے جس کا مقصد عوام کی appeasement ہے اور ان کے دل سے ناانصافی کا تصور مٹانا ہے۔ جب طاقت کے گیم میں آپ اپنی چالیں اپنے مخالفین سے بہتر چلیں گے تو کامیابی آپ کی ہوگی۔ ترکی نے جس طرح اپنی کاؤنٹر انسرجنسی کی پالیسی rhetoric, کے بجائے زمینی حقائق کے مطابق ڈالتے ہوئے کرد تحریک کو مختلف معاملے میں پسپا ہونے پر مجبور کیا، جس کی مثال اوکلان جیسے شخص کو جان بوجھ کر لکھنے اور تحریک سے اپنی تعلق قائم رکھنے کا موقع دینے جیسے فیصلے ہیں، جو آج اس کی کامیابی کے سبب بن رہے ہیں ورنہ ترکی اتنی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر چلنے والی ریاست نہیں جسے اوکلان کے انسانی حقوق سے محبت ہو۔ یہ rules of the engagement کی بہترین حکمت عملیاں ہیں جو کامیابی کو یقینی بناتے ہیں اور ترکی ان کے مطابق کام کر رہی ہے۔

ترکی نے پی کے کے خلاف ایک اور کامیابی کرد شناخت کو ترکی میں قبول کرتے ہوئے اس کیلئے اسپیس بناتے ہوئے کیا اور پی کے کے، کے اس بیانیہ کو دفن کیا کہ ترکی میں کردوں کیلئے کوئی جگہ نہیں یا ان کے شناخت کو لیکر انہیں ناانصافیوں کا سامنا ہے جس کی واضح مثال موجودہ وقت میں ترکی کا خارجہ سیکرٹری کا ایک کرد ہونے کی صورت میں ہے جبکہ اس وقت ترکی پارلیمنٹ میں کرد پارٹی ملک کی تیسری بڑی پارٹی ہے جو کرد نمائندگی کو یقینی بناتی ہے، پی کے کے، کے شرائط پر اترنے کے بجائے انہوں نے حکمت عملی کے تحت کردوں کو ملک کے مختلف شعبوں میں حصہ بنایا جبکہ اگر دیکھا جائے تو کرد اس معاملے میں اپنی جدوجہد میں کامیاب ہوئے ہیں، اگر کرد تحریک کی بنیادی بیانیہ کو دیکھا جائے تو انہوں نے اپنی جدوجہد کی بنیادی پہلو اور اسباب انہی کو بتایا البتہ بلوچ تحریک کا جائزہ لیا جائے تو سرداروں کے علاوہ بلوچ قومی تنظیمیں اور ادارے بلوچ ریاست کی بحالی کے معاملے میں ایک واضح اور دوٹوک مؤقف کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔

بلوچ قوم کو کسی بھی نظریاتی الجھنوں کے بجائے ایک واضح اور focused مقصد کو حاصل کرنے کیلئے بہترین طریقہ کار اور حکمت پر توجہ دیتے ہوئے تحریک چلانی ہے۔ کوئی بھی تحریک کسی دوسرے سے مکمل مماثلت نہیں رکھتا، ہر کسی کے اپنے زمینی حقائق ہوتے ہیں، کردوں کو ترکوں جیسے ایک عظیم قوم کا سامنا تھا جو ہزاروں سال سے خطے میں فخریہ قوم کی حیثیت سے زندگی گزار رہے ہیں، اپنی ہزاروں سالہ تاریخ پر فخر کرتے ہیں، ترک سلطنت جیسے عظیم سطلنت کے وارث رہے ہیں، اپنی زبان، زمین اور تاریخ رکھتے ہیں، ایک آزاد اور خود مختیار ریاست کے مالک ہیں جبکہ ہمیں ایک ایسی ریاست کا سامنا ہے جس کی کوئی قومی حیثیت نہیں، ہمیں صرف ایک طاقت ور طبقے کا سامنا ہے جو انتہائی مکار، پیسہ خور، منافق، جھوٹ بولنے والا، طبقہ ہے جس کے ہاتھوں ایک ریاست آچکی ہے، نہ جس کی نظریاتی بنیاد ہے اور نہ ماڈرن طریقہ حکمت سے اس کا کوئی تعلق ہے، جو اس وقت چند طاقت ور ریاستوں کے مفادات کی وجہ سے بچا ہوا ہے، جن کا ہاتھ کسی بھی وقت ہٹ سکتا ہے۔ ہمیں دنیا کے ماڈرن طریقہ کار، پریکٹسز، اور rules of the engagement کے مطابق چلنی چاہیے بس، اور اپنے دشمن سے دو قدم آگے رہنا ہے، پھر کامیابی ہماری ہوگی، اور جو بنیاد کرد رکھنے میں ناکام ہوئے اس کی بنیاد بلوچ رکھنے میں کامیاب ہونگے، اور کرد بلوچ سے آزادی کی تحریک چلانے اور کامیاب ہونے کا فلسفہ اور طریقہ کار سیکھیں گے۔

بلوچ قومی تحریک کو اگر نظریاتی فریم ورک کے مطابق دیکھا جائے تو اس کی کسی بھی تحریک کے ساتھ کوئی مماثلت نہیں بنتی، بلوچ قومی تحریک کو اس وقت تمام طبقوں کی مکمل حمایت حاصل ہے، عوام جہدکاروں سے اس حد تک محبت کرتے ہیں ان کے ساتھ مرنے کیلئے تیار ہیں، بلوچ سیاسی اور قومی ادارے کسی فرد کے بجائے نظریاتی اور اداراتی بنیاد پر مضبوط ساخت کے ساتھ موجود ہیں جبکہ ان سے اہم بلوچ ایک focused جنگ لڑ رہے ہیں جس کا مقصد قابض پاکستان سے اپنی آزاد ریاست چھینی ہے جسے طاقت کے زور پر قبضہ کیا گیا، ہمیں آج کسی نظریاتی الجھن کا سامنا نہیں اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ بلوچ تحریک کئی حوالوں سے کرد یا کسی بھی تحریک سے انتہائی مضبوط اور بہترین پوزیشن ہے البتہ ہمیں مزید اپنے اندرونی مضبوطی، علمی ساخت، اداراتی ڈھانچے، اندرونی آرگنائزیشن، سیاسی اخلاقیات کی بحالی، عالمی معیارات پر پورا اترنے کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے دشمن سے دو قدم آگے رہیں اور بلوچ تحریک کی کامیابی کو یقینی بنائے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں