کرد مزاحمت: پہاڑوں کی خاموشی یا بیانیے کا انجماد؟ – برزکوہی

1106

کرد مزاحمت: پہاڑوں کی خاموشی یا بیانیے کا انجماد؟

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

کہا جاتا ہے کہ جن قوموں نے تاریخ میں بندوق اٹھایا، وہ یا تو سلطنت بنے یا پھر مزار۔ کردوں کی جنگ، اس روایت کی درمیان میں پھنسی ایک طویل چیخ ہے، جو نہ سلطنت بنی اور نہ مزار، بلکہ ایک “نئے معاہدے” میں دفن ہوگئی۔ پی کے کے جسے ہم نے برسوں ایک استعارہ سمجھا، اب خود ایک علامت سے نجات پانے کی کوشش میں ہے۔ وہ جو پہاڑوں پر کھلی آنکھوں سے سوتے تھے، اب شہروں کے خوابوں میں بند ہو چکے ہیں۔ یہ محض ہتھیار ڈالنے کا واقعہ نہیں، بلکہ ایک پوری فکر کی “ڈی مبلائزیشن “ہے، جس میں پہاڑ، عورت، شناخت، اور انقلاب، سب کو ایک “سماجی معاہدے” کی دیوار کے نیچے دفن کردیا گیا۔

کچھ لوگ کہیں گے کہ یہ پسپائی جمہوری ارتقاء ہے، ایک بالغ سیاسی بصیرت ہے۔ لیکن نہیں، یہ نہ ارتقاء ہے نہ بصیرت۔ یہ ایک ایسی تنظیم کا نظریاتی ٹوٹ پھوٹ ہے جو قیادت کی قید، بیانیے کی مجبوری، اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کی شیریں زہر سے گزر کر، اب ایک “ماڈریٹ” اتحادی میں تبدیل ہو چکی ہے۔

کردوں نے مسلح مزاحمت کے طویل برسوں کے بعد، یہ اعلان کیا کہ اب وہ ریاست کے اندر برابری، ثقافتی خودمختاری، اور جمہوری شرکت کے اصولوں پر راضی ہیں۔ جس راہ کو وہ “جمہوری وفاق” کہتے ہیں، وہ درحقیقت اس تصورِ وطن سے فرار ہے جو کبھی ان کی لڑائی کا مرکز تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایک قوم جو دہائیوں تک خود کو ریاست سے ماورا سمجھتی رہی، وہ اس ریاست کے ساتھ دوبارہ رشتہ جوڑنے پر کیوں آمادہ ہوئی؟ اس کا جواب نہ محض تھکن میں ہے، نہ جذباتی امن کی خواہش میں، بلکہ اس گہرے شعوری عمل میں ہے جہاں مزاحمتی فکر کو ریاستی حکمت عملیوں، عالمی فریب کاری، اور داخلی فکری انتشار نے ایسے الجھایا کہ قوم نے اپنی پہچان کو ہی نیا مفہوم دے دیا۔

کرد قومی مزاحمت، بالخصوص ترکی کے خلاف پی کے کے کی قیادت میں، گزشتہ نصف صدی میں مشرقِ وسطیٰ کی سب سے منظم، نظریاتی، اور پائیدار تحریکوں میں شمار کی جاتی ہے۔ یہ تحریک اس وقت ابھری جب ترکی میں کرد شناخت کو نہ صرف غیر قانونی قرار دیا گیا بلکہ لغت، ثقافت اور زمین سے بھی منہا کر دیا گیا۔ پی کے کے نے ریاستی جبر کے اس خلا میں خود کو صرف ایک عسکری تنظیم نہیں، بلکہ کرد معاشرے کی تنظیمِ نو کے ادارے کے طور پر قائم کیا۔ اس تحریک نے عسکری، سماجی، تعلیمی اور نظریاتی سطحوں پر کردوں کو ایک متحد شناخت دینے کی کوشش کی اور اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی رہی۔

مگر جو چیز ایک مرحلے پر طاقت کی علامت بن جائے، وہ اگلے مرحلے پر زنجیر بھی بن سکتی ہے۔ وقت کے ساتھ، جب پی کے کے عالمی سیاست کے دائرے میں داخل ہوا، اسے اندرونی تنظیمی استقلال اور بیرونی جغرافیائی دباؤ کے درمیان ایک خاموش کشمکش کا سامنا ہوا۔ اسی کشمکش نے وہ زمین ہموار کی جہاں پسپائی کا بیج بویا گیا۔

پی کے کے، کی حالیہ پوزیشن، جس میں وہ آزادی سے دستبردار ہوکر ترکی کے آئینی نظام میں ایک “پرامن شراکت دار” بننے پر رضامند ہوئی ہے، محض ایک سیاسی حکمت عملی نہیں، بلکہ ایک فکری انتخاب ہے، جس کے پیچھے کئی سطحوں پر تبدیلیاں کارفرما ہیں۔ پہلا عنصر وہ لمبی جنگی تھکن تھی جو ریاستی جارحیت، داخلی استحکام کی ناپیدی، اور تنظیمی خونریزی سے پیدا ہوئی۔ چالیس برس سے زیادہ مسلح جدوجہد نے عوامی ذہن پر بوجھ ڈالا، نسلوں کو ناتمام خواب ورثے میں دیے، اور آخرکار تحریک کی قیادت کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ کیا قیمت اب مزید چکائی جا سکتی ہے؟

دوسرا اور سب سے نازک عامل تھا اوجلان کی گرفتاری کے بعد تحریک کا ایک فرد پر انحصارکرنا۔ وہ سوچ جو تحریک کو متحد رکھے ہوئے تھی، وہ اب جیل میں تنہائی کے تجربات سے گزر کر ایک ایسی شکل اختیار کر چکی تھی جو پہلے سے کہیں زیادہ مصلحت پسند، تجریدی اور “عالمی زبان وبیان” کے قریب تھی۔ اوجلان کے نظریاتی خطوط، جو ایک زمانے میں انقلابی فلسفے کا دریا تھے، اب انسانی حقوق، مقامی انتظامیہ، اور ثقافتی برابری جیسے “قابل قبول” مطالبات میں ڈھلنے لگے۔

تیسرا فیصلہ کن نکتہ، وہ عالمی اسٹیج تھا جہاں پی کے کے کو شام میں داعش کے خلاف ایک موثر قوت کے طور پر تسلیم تو کیا گیا، مگر اسی تسلیم شدگی نے تحریک کی نظریاتی زمین کھود ڈالی۔ مغربی قوتوں کی حمایت ایک عارضی اتحادی ضرورت تھی، مگر اس نے پی کے کے کو اس مقام تک لایا، جہاں اسے آزادی کے مطالبے کی قیمت، “قابل عمل” اور “مغرب کا پسندیدہ ” بننے کے لیے ادا کرنا پڑا۔ انہیں بتایا گیا کہ ریاست کی تشکیل پر اصرار کرنا پرانا ہے، اور نئی دنیا میں “خود مختار وحدتیں” ہی سیاست کا جدید چہرہ ہیں۔ پی کے کے نے یہ بات قبول کر لی اور یہی وہ لمحہ تھا جب جدوجہد کا دائرہ ایک قوم سے محدود ہو کر چند ضلعی کونسلوں تک سمٹ گیا۔

بلوچ قوم کو اس موڑ پر کھڑے ہو کر صرف یہ سوال نہیں کرنا کہ کردوں نے کیا کھویا یا پایا، بلکہ یہ سمجھنا ہے کہ ہم کیا کھو سکتے ہیں۔ رواں بلوچ تحریک آزادی، جو اس وقت اپنی مزاحمت کے تیسرے اور سب سے شدید مرحلے میں ہے، اسے یہ طے کرنا ہے کہ نظریاتی ثبات، عسکری پیش رفت، اور عوامی حمایت کے اس مثلث میں اپنی پوزیشن کہاں متعین کرے؟

اب سوال یہ ہے اس میں بلوچ کیلئے سیکھنے کیلئے کیا ہے؟ میری نظر میں، بلوچوں کو اب اپنے بیانیے کو لفظوں میں نہیں، فیصلوں میں تراشنا ہوگا۔ ہمیں ہر اس حکمت عملی سے پرہیز کرنا ہوگا جو دشمن کی حکمت عملی سے ملتی جلتی ہو۔ مذاکرات کی میز، عالمی طاقتوں کی سفارت، یا جمہوری شرکت جیسے راستے صرف اس وقت نتیجہ خیز ہوسکتے ہیں، جب ان کی بنیاد ایک ناقابل تردید حقیقت پر ہو کہ بلوچ ایک قوم ہے، اور اقوام کی بقا صرف برابری میں نہیں، حاکمیت میں ہوتی ہے۔ پی کے کے نے یہی نکتہ چھوڑ دیا، بلوچ تحریک کو یہی نکتہ سینے سے چمٹا کر رکھنا ہے۔ کیونکہ حاکمیت کے بغیر برابری کی کوئی ضمانت نہیں۔

ہمیں اپنے تنظیمی ڈھانچے کو ایسے طریقے سے ڈھالنا ہوگا کہ اگر کل ہماری قیادت کو دشمن زنجیروں میں جکڑ دے، تو تحریک صرف زندہ نہ رہے بلکہ فکری طور پر مضبوط تر ہو۔ ہمیں ہر اس بیانیے سے گریز کرنا ہوگا جو قربانی کو امن کی کرنسی سمجھتا ہے۔ ہمیں یہ شعور پیدا کرنا ہوگا کہ دنیا کی کوئی بھی تنظیم اس وقت تک ناقابل تسخیر رہتی ہے جب تک اس کا فکری مرکز اس کے زمینی عمل سے ہم آہنگ ہو۔ پی کے کے نے اس ہم آہنگی کو ترک کردیا، اور یہی لمحہ ان کی تاریخی پچھتاوے کا نقطۂ آغاز بنے گا۔

بلوچ کو کردوں کی ہزیمت سے یہ سیکھنا ہے کہ دشمن صرف توپ و تفنگ سے نہیں، فکری مہارت سے بھی حملہ آور ہوتا ہے۔ جب وہ آپ کو بتائے کہ آزادی ایک دقیانوسی تصور ہے، تو آپ کو یہی کہنا ہے کہ ہم کسی نئی دنیا کے پرانے غلام نہیں بنیں گے۔ جب وہ آپ کو مشورہ دے کہ شناخت کو ثقافت کے اندر محفوظ کرو، تو آپ کو کہنا ہے کہ شناخت بغیر اختیار کے محض ایک رسم رہ جاتی ہے۔

کردوں کا انجام ایک تاریخ کا ورق ہے، جسے بلوچوں کو غور سے پڑھنا ہوگا۔ ہمیں اس ورق کے کناروں پر اپنی تحریک کا مستقبل تلاش کرنا ہے، ان سطروں میں جو لکھی نہیں گئیں، لیکن جو پڑھنے والے کے شعور میں گونجتی ہیں۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم کون ہیں، کہاں جا رہے ہیں، اور کس قیمت پر۔ یہی شعور ہمیں وہ راستہ دے گا جس پر نہ پسپائی ہوگی، نہ شکست، صرف سفر ہوگا، اور سفر وہی جو آزادی کے سوا کسی موڑ پر نہیں رکتا۔

یہاں ایک اہم سوال ابھرتا ہے کہ اب بلوچوں کا موقف پی کے کے یا کرد قومی سوال پر کیا ہونا چاہیئے؟ ہم کردوں کی تاریخی قربانیوں کے گواہ ہیں، ان کی وہ جنگ جو انہوں انتہائی بہادری اور قربانیوں سے لڑی، وہ ہمارے لیے قابلِ احترام رہے گی۔ لیکن احترام اور پیروی دو مختلف چیزیں ہیں۔

کردوں کا فیصلہ ان کا اپنا تھا، ان کی زمین، ان کا دشمن، ان کے حالات مختلف ہیں۔ ہم ان سے سیکھ سکتے ہیں کہ کب جھکنا خطرناک ہوتا ہے، کب دشمن کے مکالمے میں زہر چھپا ہوتا ہے، اور کب جنگ کے میدان سے بیانیہ کا میدان زیادہ پرخطر ہوتا ہے۔ لیکن ہم اپنی راہ، ان کے نقشِ قدم پر نہیں، اپنے لہو سے بنائیں گے۔ بلوچ قوم کسی ایسی منزل کی متلاشی نہیں جسے اقوامِ متحدہ کے نقشے پر ایک کونے میں جگہ مل جائے، بلکہ وہ آزادی چاہتی ہے جو اس کے شہیدوں کی نیند کا کفارہ بن سکے۔

پس، ہمیں ایک ایسا لہجہ اختیار کرنا ہے جو نہ عاجز ہو، نہ متکبر، لیکن اتنا باوقار ہو کہ دشمن کو سن کر خنجر کی چبھن محسوس ہو، اور دوست کو سن کر آئینہ دکھائی دے۔ ہم نہ خاموشی اختیار کریں گے، نہ چیخ و پکار۔ ہمارا لہجہ وہی ہوگا جو ایک قومی فوج کی رائفل کے پیچھے، اور ایک قوم کی تاریخ کے سینے میں دھڑکتا ہے۔

بلوچ کو یہ واضح کرنا ہوگا کہ ہم کردوں کی گزشتہ قربانیوں کے معترف ہیں، لیکن ان کے حالیہ سیاسی زاویے سے فکری وعملی فاصلہ رکھتے ہیں۔ یہ فاصلہ دشمنی نہیں، خودداری ہے۔ ہمیں وہ تحریک نہیں بننا جو عالمی قبولیت کے لیے اپنا جھنڈا لپیٹ دے۔ بلکہ وہ تحریک رہنا ہے جو زخموں سے عبارت ہو، مگر اصولوں پر کھڑی ہو۔ کردوں کا انجام ہماری نظروں کے سامنے ہے۔ ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ ہماری منزل ان کے انجام سے الگ ہونی چاہیے۔

ہمیں یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں ہونی چاہیے کہ بلوچ قومی تحریک اب بھی ایک ناقابلِ مفاہمت، مکمل آزادی کی جدوجہد ہے۔ ہم ہر اس مصلحت سے گریز کریں گے جو آزادی کو کسی “مقامی خوداختیاری” یا “جمہوری اصلاحات” کے لبادے میں دفن کرنے کی کوشش کرے۔ اور ہمیں یہ سیکھنا ہوگا کہ جب دشمن ریاست مذاکرات کی میز لگاتا ہے، تو اس کے نیچے ہمیشہ ہتھیار چھپے ہوتے ہیں۔

پی کے کے کی پسپائی بلوچوں کے لیے تنقید کا موقع نہیں، بلکہ ایک سبق ہے۔ یہ سبق کہ اگر قیادت قید ہو جائے، اگر بیانیہ عالمی طاقتوں کے مطابق ڈھلنے لگے، اگر قربانی کو سیاسی ساکھ سے بدلا جائے، تو آزادی خواب بن جاتی ہے۔ بلوچ قوم کو اپنا راستہ خود چننا ہوگا۔ وہ راستہ جو دشمن کی تعریف، اتحادیوں کی مصلحت، یا عالمی “قبولیت” سے نہیں بلکہ قومی وجود، تاریخی فہم، اور غیر مفاہمتی عزم سے نکلتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں