بلوچ قوم کا نڈر سرمچار اور میرا عزیز دوست شہید غلام رسول مری
تحریر: جی ایم بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
تاریخِ انسانیت میں جب بھی مزاحمت اور قربانی کی بات آئے گی، وہاں ایسے جانثاروں کے نام ضرور سنہرے حروف میں لکھے جائیں گے جنہوں نے اپنے لہو سے آزادی کی داستانیں رقم کیں۔ بلوچ قومی تحریک کے ایسے ہی درخشاں ستارے، شہید غلام رسول مری، نہ صرف ایک بے باک اور نڈر سپاہی تھے بلکہ ایک صاحبِ بصیرت رہنما، مہربان ساتھی اور میرے دل کے قریب ترین دوست بھی تھے۔
شہید غلام رسول مری کی شخصیت کئی جہتوں کی حامل تھی۔ وہ محض بندوق اٹھانے والے ایک جنگجو نہیں تھے، بلکہ ایک گہرے فکری شعور کے مالک، نرم گفتار، عاجز اور معاملہ فہم شخصیت تھے۔ ان کے فیصلوں میں دور اندیشی، ان کی باتوں میں نرمی، اور ان کے رویے میں غیر معمولی بردباری نمایاں ہوتا۔ وہ اکثر محاذِ جنگ سے بھی وقت نکال کر مجھ سے رابطے میں رہتے۔ ہماری بات چیت اکثر روزمرہ کے حالات سے شروع ہوتی، اور پھر آہستہ آہستہ تحریک، میدان کی صورتحال، اور حکمتِ عملی کی تفصیلات تک پہنچ جاتی۔
ایک قائد ہونے کے باوجود وہ مشورے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے۔ کئی بار جب ہم کسی بات پر اختلاف کرتے، تو وہ کھلے دل سے سن کر کہتے، “ہاں، تم ٹھیک کہہ رہے ہو، یہی بہتر ہے۔” یہی ان کی قیادت کا حسن تھا. ایک ایسا رہنما جو اپنی ذات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بھی دوسروں کی رائے کو اہمیت دے۔
شہید غلام رسول مری نے چمالنگ جیسے حساس اور دشوار گزار علاقے میں جس جرات، حکمت اور بصیرت سے قیادت کی، وہ بلوچ مزاحمتی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ ان کی کمان میں چمالنگ دشمن کے لیے ایک خوف کی علامت اور بلوچ تحریک کے لیے ایک سنگِ میل بن گیا۔ مگر ان کی جدوجہد صرف چمالنگ تک محدود نہ تھی۔ بولان اور کاہان جیسے تاریخی جنگی مورچوں میں بھی ان کی قیادت فیصلہ کن رہی۔
بولان، جو بلوچ مزاحمت کا قلب تصور کیا جاتا ہے، وہاں غلام رسول مری نے ایسے محاذوں کی قیادت کی جہاں نہ صرف دشمن کے عزائم ناکام ہوئے بلکہ تحریک کو نئی توانائی بھی ملی۔ ان کا تنظیمی شعور، گوریلا حکمت عملی میں مہارت، اور ساتھیوں پر بے پناہ اعتماد نے انہیں ہر مورچے کا کامیاب کمانڈر بنایا۔ کاہان جیسے دشوار گزار علاقوں میں بھی ان کی موجودگی نے دشمن کے لیے زمین تنگ کر دی۔ وہ ایسے کمانڈر تھے جو نہ صرف گولی چلانا جانتے تھے بلکہ جذبات، وفاداری اور اعتماد کے ذریعے قلوب فتح کرتے تھے۔
مجھے وہ لمحہ آج بھی یاد ہے جب ایک دوست نے فون پر اطلاع دی. “شہید غلام رسول ہم میں نہیں رہے۔” وہ لمحہ میرے لیے قیامت سے کم نہ تھا۔ ایسا محسوس ہوا جیسے وقت تھم گیا ہو، سانسیں رُک گئی ہوں، اور دل پر ایسی چوٹ لگی ہو جو شاید کبھی بھر نہ سکے۔ ایک طرف تحریک نے اپنا ایک قابل، دلیر، اور فہم رکھنے والا قائد کھو دیا، تو دوسری طرف میں نے اپنا ایک سچا اور نایاب دوست۔
لیکن شہید غلام رسول مری کی شہادت محض ایک اندوہناک واقعہ نہیں، بلکہ ایک نئی روشنی ہے. ایک پیغام، ایک عہد، کہ ہم ان کے مشن کو زندہ رکھیں گے۔ ان کے اصول، ان کا کردار، ان کی قربانی اور ان کی جرات ہمیں ہمیشہ حوصلہ دیتی رہے گی۔ وہ آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں، ہمارے خوابوں، گفتگوؤں، اور راستوں کا حصہ ہیں۔
یہ تحریر محض خراجِ عقیدت نہیں، بلکہ ایک عہد ہے کہ ہم ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اس جدوجہد کو اس کے منطقی انجام تک لے جائیں گے۔ شہید غلام رسول مری کی یاد، ان کی قربانی، اور ان کا قومی نظریہ تاریخ کے سنہرے اوراق میں ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں