پاکستان دنیا کے لیے ایک خطرہ ہے – بادوفر بلوچ

119

پاکستان دنیا کے لیے ایک خطرہ ہے

تحریر: بادوفر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

‏‎حالیہ برسوں میں بین الاقوامی برادری نے پاکستان کی اسٹریٹجک پوزیشن، خاص طور پر دہشت گردی، علاقائی عدم استحکام اور جنوبی ایشیا کی جغرافیائی سیاست میں اس کے کردار کے حوالے سے ایک متعلقہ نمونہ دیکھا ہے۔ ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں پہلگام حملہ ایک اہم موڑ تھا جس نے پاکستان کی اندرونی حرکیات اور بین الاقوامی سطح پر نامزد دہشت گرد نیٹ ورکس سے اس کے روابط کو نمایاں کیا۔ یہ حملہ، جس میں درجنوں بے گناہ سیاحوں کی جانیں گئیں، نہ صرف ایک المیہ تھا بلکہ جاگنے کی ایک کال بھی تھی۔ یہ حملہ اُن گھناؤنے عزائم کا ایک عملی مظاہرہ تھا جس کی پشت پناہی میں پاکستان ہمیشہ سے پیش پیش رہی ہے۔

‏‎پہلگام حملے کے بعد بھارت کی جانب سے فوری جوابی کارروائی کی گئی اور پاکستان کو واضح طور پر نشانہ بنایا گیا۔ ہندوستانی افواج نے پاکستان کی سرزمین کے اندر دہشت گردوں کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف حملے کیے، جو رواداری سے فعال دفاع کی طرف تبدیلی کا اشارہ ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ بہت سے ٹارگٹ گروپس طویل عرصے سے پاکستانی سرزمین سے آپریٹ کرنے کے لیے جانے جاتے تھے۔ یہ عناصر بسا اوقات ملک کی طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ کی حفاظت یا نگرانی میں برسرِ پیکار رہتے آ رہے ہیں جنہیں فوج اپنے گھناؤنے عزائم کی خاطر استعمال کرتی ہے۔ کچھ رپورٹس یہاں تک بتاتی ہیں کہ یہ گروپ فوجی حراست میں تھے لیکن پھر بھی آپریشن کرنے کے قابل تھے۔ یہ پاکستان میں ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کے درمیان دھندلی لکیروں کو اجاگر کرتے ہیں اور اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ دراصل فوجی اسٹیبلشمنٹ اس خطے میں اپنی غیر فطری اثر و رسوخ کو بحال کرنے کیلئے کونسے ہتھکنڈوں کو بروئے کار لا رہی ہے۔

‏‎اگرچہ مختلف مقامات پر جنگ بندی کے معاہدوں سے متعلق بات چیت کا دور شروع ہوا، لیکن زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ پاکستان کی جانب سے علاقائی بیانیے پر اثر انداز ہونے کے لیے پراکسی اور سوشل میڈیا کا استعمال جاری ہے۔ طویل المدتی امن کی طرف گامزن ہونے کے بجائے، پاکستانی فوج سستی کو کشیدگی کم کرنے کی حقیقی کوششوں کے طور پر دیکھنے کے بجائے اُسے سٹریٹجک توقف کے طور پر دیکھتی ہے۔ یہ اُس مصمم حقیقت کی جانب واضح اشارہ ہے کہ کیسے یہ ریاست اس خطے میں انہی کشیدگیوں اور تنازعات کے بل بوتے پر اپنی ساکھ و سالمیت کو کندھا دینے کیلئے مذہبی بیانیے اور نام نہاد انسانی بحران کا رونا روتی ہے۔

اسی طرح، پاکستان سیاسی اور معاشی عدم استحکام کے خلاف کھڑے عوامی سوال کو گھما پھرا کر غیر ملکی قوتوں کو ذمہ دار ٹھہرا کر نااہل حکام اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کو بری الذمہ کرتی ہے۔ یہ وطیرہ اپنی ناکامی کو چھپانے اور پس پردہ اپنے عزائم کو جاری رکھنے کی اُس ناکام کوشش کا ایک واضح عکس ہے جس کی نشاندہی بسا اوقات انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں کرتے آ رہے ہیں۔ با الفاظِ دیگر، پاکستان وہ شیطانی دماغ کا مالک بچہ ہے جو خود کو وائٹ کالر اور معصوم کہہ کر دوسروں پہ کیچڑ اُچھالتی ہے اور جب اُس کا راز افشاں ہو تو، کسی دوسرے بچے سے اپنے آگن کا گملہ توڑوا کر لوگوں کی توجہ اُس معاملے پہ مبزول کرواتی ہے۔

‏‎ہندوستان کا عالمی سطح پر اقتصادی کردار مسلسل بڑھ رہا ہے۔ نوجوانوں کی ایک مظبوط افرادی قوت، ترقیاتی ٹیکنیکل شعبہ، ایک مضبوط خدمات کی صنعت، اور تیزی سے ڈیجیٹل معیشت کے ساتھ ہندوستان نے خود کو ترقی یافتہ معیشتوں کے لیے ایک کلیدی شراکت دار کے طور پر کھڑا کیا ہے۔ یہ ایک اہم مارکیٹ اور ابھرتی ہوئی جغرافیائی سیاسی طاقت بھی ہے۔ اس کے برعکس، پاکستان کی معاشی صورت حال انتہائی نازک ہے۔ ملک دائمی مالیاتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے، کم غیر ملکی ذخائر، بین الاقوامی امداد پر انحصار، اور درآمدات پر بھاری انحصار سے دوچار ہے۔ اس کی تنگ برآمدی بنیاد اور سیاسی عدم استحکام بحالی کو مزید پیچیدہ بناتا ہے۔ با الفاظِ دیگر، پاکستان ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ یہ یا تو اقتصادی اصلاحات، سیاسی استحکام، اور پرامن بقائے باہمی کا انتخاب کر سکتی ہے، یا پھر علاقائی عدم استحکام اور بین الاقوامی تنہائی کا راستہ جاری رکھ سکتی ہے۔

دوسری جانب، ہر آنے والی حکومت فوج کی پشت پناہی میں بدعنوانی اور بیانیے کی سیاست کی ڈوری تھام کر اپنے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ناکام کوششیں کرتے ہوئے بالآخر اس غیر فطری ریاست کو ہمیشہ کیلئے “بھاڑ میں جائے” کہہ کر بیرونی ملک فرار ہوتی ہے، اور جب ذاتی خزانے خالی ہو جائیں، تو پھر سیاسی عدم استحکام اور موجودہ حکومت کو توڑنے کیلئے مختلف شرپسند عناصر کو استعمال کرتی ہے۔ بدعنوانی اور سیاسی و معاشی عدم استحکام کی وجہ سے ناقدین کا کہنا ہے کہ پاکستان شاید جغرافیائی سیاسی بلیک میلنگ کی طرف مڑ رہا ہے اور اپنی فوجی اور جوہری صلاحیتوں کو بین الاقوامی سطح پر فائدہ اٹھانے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔

‏‎امریکہ اور چین نے کئی عشروں سے پاکستان کو عسکری اور مالی امداد فراہم کی ہے۔ پس پردہ اُن کا مقصد یا تو علاقائی دشمنوں پر قابو پانے کے لیے یا سٹریٹجک قدم جمانے کے لیے تھا۔ اس حمایت، خواہ جان بوجھ کر نہ کیا جائے، نے پاکستان کی اُس فوج کو حوصلہ دی ہے جو اس ملک کی سویلین گورننس اور اقتصادی حیثیت کے لیے غیر متناسب اثر و رسوخ کو بڑھا رہی ہے۔ آج اسی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو کچھ تجزیہ کار صرف ہندوستان کے لیے ہی نہیں بلکہ عالمی استحکام کے لیے خطرہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ کیونکہ وہ پس پردہ اور واضح طور پر اپنے عسکری اور مالی امداد کی آمد کو جاری رکھنے کیلئے خطے میں سیاسی عدم استحکام کو ہوا دے رہی ہے۔ خواہ وہ ہندوستان کے زیرِ انتظام کشمیر ہو، افغانستان ہو یا بلوچ سرزمین ہو، وہ وحشی اور جابر فوج کے ساتھ ساتھ مختلف گرہوں کی شکل میں نہ صرف اس خطے کو، بلکہ عالمی سطح پہ جاری معاشی و سیاسی منصوبوں کو نقصانات سے دوچار کر رہی ہے۔

‏‎موجودہ رفتار کے پیش نظر، عالمی برادری کو پاکستان کے بارے میں اپنے نقطہ نظر کا سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہیے۔ ایک متنازعہ تجویز جو بعض پالیسی حلقوں میں توجہ کا مرکز بن رہی ہے، وہ یہ ہے کہ پاکستان کی تنظیم نو یا اسے غیر مرکزیت کے ذریعے چھوٹی انتظامی ریاستوں میں تبدیل کرنا، فوجی طاقت کو کم کرنا اور علاقائی جبر کے لیے اس کی صلاحیت کو کم کرنا ضروری امر بن چکا ہے۔ اگرچہ اس طرح کا حل پیچیدگیوں سے بھرا ہوا ہے، لیکن وسیع تر نکتہ باقی ہے: جوہری ہتھیاروں کے ساتھ ایک کمزور ریاست میں فوجی تسلط عالمی امن کے لیے ایک طویل مدتی خطرہ ہے۔ دنیا، خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک اور بڑی طاقتوں کے لیے اب وقت آ گیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ بحران میں ایک مستقل اتحادی کے طور پر برتاؤ کرنا بند کریں اور ان ساختی مسائل کو حل کرنا شروع کریں جو اسے عالمی سلامتی کے لیے بار بار چیلنج بنا دیتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں