میرا غمخوار سنگت دل جان
تحریر : سالار بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ : کالم
دلجان کیلئے لکھنا، ضیاء کو بیان کرنا میرے جیسوں کی نہ بس کی بات ہے، نہ ہی لکھنے سے الفاظ کے وہ قرض ادا ہوجائیں گے اور نہ ہی میری یہ کوشش بارآور ثابت ہوسکتی ہے۔
ضیاء وہ ہستی، وہ قلم کار، وہ زغم جنوک ہے جس کی مثالیں ممکن نہیں، اور یہ ممکنات میں شامل ہی نہیں کہ کوئی اس جیسا ہمنوا دوبارہ ہو، جو رہبر بھی، رہشون بھی، بزغر و شوہان کا درد محسوس کرے، گوریلا کمانڈر مہربان سنگت سے لیکر ایک غمخوار جس کے ہوتے ہوئے نہ مجھے کبھی کوئی پریشانی رہا نہ ضیاء جان نے مجھے پریشان ہونے دیا۔
ضیاء مجھ سمیت کئی دوستوں سے کہا کرتا سنگت (لکھینگ نا کوشش کبو درس تریسا کینہ کمی تے برابر کینہ) لکھتے رہو درس دیتے رہینگے کمی کو پورا کرتے رہینگے۔ لیکن ضیا جان ہمارے جان سے گذر گئے اور کمی کوتاہی ہمیشہ کے لیئے رہ گئے۔
دلجان سے میں بچپن ہی سے واقف تھا، یہ میری خوش قسمتی ہی تھی، جو 13 سال کی عمر میں بھی دلجان مجھے اپنے ساتھ پکنک کے لیے تیار کرتا، ہم پکنک منانے جاتے اور سجی کے ساتھ استاد میر احمد کے پرفکر آواز سے پیر عمر کی وہ جنت نُما منظر سے اپنے پیاس بجھاتے۔
دن رات میں ڈھلتے گئے، دلجان کوئٹہ چلا گیا جاب کے سلسلے میں مجھے کال کیا اور کوئٹہ آنے کو کہا، ضیاء سے ملنے کوئٹہ چلا گیا، پہلی دفعہ کوئٹہ سفر کر رہا تھا، راستے، سفر اور لوگ سب میرے لیئے انجان تھے۔ مجھے یاد ہے جب خضدار سے روانہ ہوئے تو ڈرائیور کھنڈ سے ہوتے ہوئے سنی سے مین روڈ پر نکل گیا۔ سواریوں کے پوچھنے پر معلوم پڑا آج تو خضدار سمیت قلات منگوچر پہیہ جام ہڑتال ہے کیونکہ منگوچر میں زیب لانگو کو فائرنگ کرکے قتل کیا گیا تھا۔
جب ہم منگوچر پہنچے، وہاں ہمیں گھنٹوں گذارنے پڑے، راستہ بند گاڈیوں کی لمبی قطار لگی وقفے وقفے سے زیب کے سپاہیوں کی بلا وجہ ہوائی فائرنگ تھی، میں کچھ پریشان بھی نہیں ہوا نہ ہی دل میں کچھ وسوسہ ہوا کیونکہ دل جان میرا انتظار کر رہا تھا اور وہ مجھے سنبھالنا اچھی طرح جانتا تھا، دلجان مجھے فون کرتا اور ڈرائیور سے بات کرتا، کب نکلوگے کب پہنچوگے اور بعد میں فون پر کم عمری کی وجہ سے مجھے حوصلہ دیتا رہا۔
ضیاء سے وابستہ یادیں اتنی ساری ہیں، انہیں قلم بند کرنا ان کی یاد میں کھوجانے اور ارمانوں میں بہہ کر دلجان کے ساتھ کوئی بے وفائی نا کر بیٹھوں، جو ہروقت وفا سنگتی کا مثال رہا کرتا، ایک دوست جو اپنی آخری گولی اپنی لیئے رکھا کرتا تھا تاکہ سنگتوں کے راز، تنظیمی راز اپنے سینے میں رکھ کر سنگت امیر کے نقش قدم پے چلے۔ وہ سنگتی کو فرض کی طرح سمجھتا اور عمل کرتا اور ثابت کرتا رہا۔
دلجان کے اشتہاری ہونے کے بعد اس سے ملنے کیلئے، آنکھیں ترس ہی گیئے تھے،وقت سالوں میں بدل گئے ہم ان سے ملنے کے انتظار میں اور وہ وطن کے چاہ میں مگن رہے، پھر کہیں جاکر دلجان سے ملاقات ہوگئی، اب دل جان اور میں ایک فکر ایک سنگتی کے بنیاد پر ملے تھے، دلجان کے اشتہاری ہونے کے بعد جب 2014 میرا اور ایک اور دوست کا دلجان سے ملاقات ہوا تو 2 گھنٹے کا لیکچر اور ایک غلطی کے بنا پر کئی باتیں دلجان سے سننا پڑا ہمیں اور آخر میں وہ سنگت کسی کام سے چلا گیا۔ دلجان نے ہنستے ہوئے اتنا ہی کہا سنگت( اوست متویرے ولے بھاز پاروئی اس نُمے) سنگت دل نہ مانا مگر اس متعلق اور بہت کچھ سنانا تھا۔ سنگت کام کے متعلق بے حد سنجیدہ رہتا، وہ کسی بھی کام میں غلطی پر کافی کچھ سناتا اس متعلق سختی سے مشورہ دیتا، سنگت کے چلے جانے کے بعد میں وہیں ٹہرا رہا اور پھر وہیں سالوں کے قصے محفلیں جو ہمارے درمیان ادھورے رہ گئے تھے وہ پورے کرنے لگے۔
اس کے بعد دلجان سے اکثر ملاقاتیں ہوتی رہیں، دن رات مہینے اور عیدیں بھی دل جان کے سات گذرتے گئے، جب زہری میں دلجان سے ملاقات ہوتا، دلجان کے چہرے سے اس کے خواریوں کا اندازہ ہوجاتا، دن رات سنگتوں کو برابر کرنا، ان کیلئے سوچنا، ترتیب دینا، ان سے رابطہ میں رہنا، ہر وقت دوستوں کے شانہ بشانہ کھڑے رہنا، کوئی دلجان سے ہی سیکھتا، حتیٰ کہ اپنے علاج کے پیسے دوستوں کے ضروتوں اخراجات میں دیتا، اسے یہ فکر لاحق تھا کہ کہیں کسی دوست کا کوئی مجبوری یا ضرورت اسے کام سے نہ روکے وہ ہر طرح سے دوستوں کی مدد کرتا۔
دلجان اپنا درد تکلیف ہمیشہ چھپائے رکھتا، جب اس کو تنگ کرتا طبیعت کا پوچھتا، دلجان ہنسی مزاق میں بات ٹال دیتا کہیں یہ پریشان نہ ہو جائے، ٹھکانہ نہ ہونے کے سبب دلجان اکثر شام کسی پہاڑ یا میدان، کسی فصل اور باغ میں یا کئی دفعہ مسجدوں میں گذارتا۔ کسی راستے پہ سفر کر رہے تھے، دلجان نے مسجد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا (دا مسجد نا مُلا کم بخت درو سوب نا روشنی آن مالو ننے بش کرے) اس مسجد کا ملا کم بخت نے کل ہمیں سویرے ہونے سے پہلے ہی جگا دیا تھا۔ میرے پوچھنے پر معلوم پڑا گذری رات دل جان اور ایک سنگت نے اسی مسجد میں رات گذاری تھی۔
غلامی کی زندگی ہو اور گوریلا عیش او عشرت آرام دہ زندگی کو سوچے ممکن نہیں اور دلجان کے لیے سب سے بڑھ کر یہ تھا کہ وہ وطن کی گود میں کہیں بھی اپنا رات بسر کرے اور صبح تنظیمی کاموں میں وقف کردے۔
دلجان اپنے ذات، اپنے گھر بار، بیوی بچوں، رشتہ داروں کو کبھی بھلا نا پایا ہوگا، جو اپنوں سمت ہر فرد کا محبت اپنے دل میں لیئے دشت و سحرا کا راہی بن جاتا ہے وہ اپنوں کو کیسے بھول سکتا ہے، مگر اسکے یہ رشتے کبھی اسے کمزور نہ کر پائے۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا یہ سلسلہ یہ کام بس یہی سب کچھ اپنے زمہ ہے۔ جو پورے کرنے کیلئے نثار جان، کاکا علی، شہید شیرا، امتیاز، عرفان عرف صدام بیتاب رہتے، اب یہ ہمیں پورا کرنا ہے اور دلجان نے شہید سنگتوں کی قربانی کا لاج رکھتے ہوئے قربان ہوگیا۔
دلجان نے بزدل دشمن کو اس کے گھیرے میں رہ کر ہی شکست دیتا رہا، مسلسل تین گھنٹے دلجان او بارگ جان لڑتے رہے، اور دشمن کی آخری شکست یہ رہی کہ وہ انہیں زندہ پکڑنے چلا تھا اور دلجان و بارگ جان کی آخری فتح ان کی آخری گولی سے ہوا۔
جاتے ہوئے بارگ جان اور دلجان نے وہ تمام تر زمہ داریاں وہ کام ہمارے ذمہ چھوڑ کر چلے گئے، ان کو پورا کرنا دلجان و بارگ جان کے کاروان کو اچھی طرح آگے بڑھانا ہماری ذمہ داری ہے، ہمیں دشمن کو باور کرانا ہوگا، شہید کبھی مرتے نہیں، وہ دلجان کی شکل میں بارگ جان کی شکل میں نثار کا پیغام دلوش جان کی محنتیں، کاکا علی اور امیر الملک سمیت ہر شہید کی خواریوں کو جھالاوان کے مخلوق کو پہنچا چکےہیں، دلجان نے زہری کے مخلوق کو سکھا کر جان دی کے حقیقی کمانڈر حقیقی جہد کار حقیقی سپاہی کون ہے، وہ نواب جو ہیلی سے اترتے ہوئے لرزتا ہے( کازبہ) آسمان سے دیکھ کر بھی روپڑتا ہے یا وہ دلجان او بارگ جان جو ایک پرانے بائک پر کبھی سوئندہ، کبھی مشک بیل، کبھی پٹ اور مولہ کے بینٹوں پر نظر آتے اپنے مخلوق اور عوام کا درد سینے میں لیئے پھرتے ہیں اور وہی درد، دل جان کو بولان پارود نیمرغ سے زہری اور بارگ جان کو خاران مشکے سے زہری کھینچ لایا تھا۔
ٹک تیر کا کاروان رُکا نہیں، سفر کر رہا ہے، امیر جان کے پیروکار آتے رہینگے، ساتک جان کی شکل میں عرفان جان کی شکل میں بارگ اور ضیاء دلجان کی شکل میں۔ جب دل جان او بارگ جان کے کاروان کے ساتھی بارگ اور دل جان کے جاہ شہادت سے گذرتے ہیں ان کے حوصلے میں بولان کی بلندی سما جاتی ہے، دلجان و بارگ جان آج بھی زہری کے دشت و صحرا میں مورچہ زن اپنے عمل کو آگے بڑھا رہے ہیں۔