آہ ! کیپٹن – شے بجار

301

آہ ! کیپٹن

تحریر : شے بجار

دی بلوچستان پوسٹ : کالم

ویسے تو دنیا میں لاکھوں انسان روزانہ مرنے کیلئے پیدا ہوتے ہیں، لیکن اُن انسانوں میں کچھ ایسے انسان ہوتے ہیں کہ ان کے چلے جانے یا مرنے کے بعد بھی انہیں دنیا ہمیشہ یاد کرتی ہے یعنی وہ مر کر بھی زندہ رہتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو زندہ رہ کر بھی مردوں میں شمار ہوتے ہیں. وہ لوگ جواپنی قومی آزادی اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کیلئے اپنے کل کو قربان کرچکے ہیں۔ آج میں ایک ایسے شخص کے بارے میں لکھ رہا ہوں، وہ بھی ایسے ہی خود اور خودی کو قربان کرنے والوں میں سے ایک تھا۔
جو بھی انسان اپنی ذات سے بالاتر ہوکر انسانیت کی بھلائی کے لیے ذرا سا بھی کام کرتا ہے وہ لائق تحسین ہے۔

یوں تو بہت سے عاشقانِ وطن سے واسطہ اور تعلق رہا ہے، مگر ان میں سے کچھ ایسے پُرخلوص اور ایماندار کامریڈوں سے سامنا ہوا ہے. جنکی کمی رہتی دنیا تک بندہ محسوس کرتا رہیگا۔ ان عظیم سنگتوں میں سے ایک شھید جہانگیر عرفِ کیپٹن ہے۔ جس نے آخری سانس تک قومی اقدار کے ساتھ سودے بازی نہیں کیا۔ وہ آخری سانس تک قومی آزادی کی مانگ پر ڈٹے رہے۔

وہ اندرونی اور بیرونی مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرتے رہے۔ شھید کی سوچ سے گذشتہ چار برس پہلے واقف ہوا تھ،ا قومی مسائل پر سنجیدگی سے بحث کرنا اور مسائل کا خاطر خواہ حل نکالنا شھید کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں سے ایک تھا۔ پہلے ہی دن کے مکالمے میں مجھ ناچیز کو یہ بات سمجھنے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوئی کہ بلوچ نوجوان سرمچار گذشتہ تلخ تجربات سے سیکھ کر اپنی صفوں میں اصلاح لانے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ جہانگیر کی پرجوش اور پر امید گفتگو مجھے باور کرا رہا تھا کہ اب مزید بلوچ قومی مفادات سے سمجھوتہ کرنے والوں کو خاموشی سے برداشت نہیں کیا جائیگا۔۔

شھید جہانگیر کی قومی مسائل پر سنجیدہ کوششوں کو کوئی بھی سنگت فراموش نہیں کر سکتا اور رہتی دنیا تک شھید جہانگیر کی جدوجہد کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔۔