سات سال کی آواز ارحم بلوچ کا سوال
تحریر: احمد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ایک دن میں گھر میں بیٹھا اپنے موبائل پر خبریں دیکھ رہا تھا۔ میرا سات سال کا بیٹا، ارحم بلوچ، جو دوسری کلاس میں پڑھتا ہے، حسبِ معمول میرے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ اس وقت خبر چل رہی تھی کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ارحم بڑی دلچسپی سے اسکرین پر نظریں جمائے دیکھ رہا تھا۔ اچانک اُس نے معصومیت سے مجھ سے سوال کیا:
“بابا! ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور اُن کے ساتھیوں کو کیوں گرفتار کیا گیا ہے؟ اور اب اُنہیں کون جیل سے رہا کرے گا؟ اُن کا کیا بنے گا؟”
میں لمحہ بھر کے لیے خاموش ہو گیا۔ میں نے کوئی جواب نہ دیا، شاید اس لیے کہ میرے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا، یا شاید میں اپنے دل کے خوف کو لفظوں میں ڈھالنے سے ہچکچا رہا تھا۔ مگر ارحم بلوچ کا سوال دل میں اتر گیا۔ وہ روزانہ یہی سوال دہراتا: “بابا، ڈاکٹر والوں کا کیا بنا؟”
چند دن بعد، ایک اور خبر چلی۔ بتایا گیا کہ سردار اختر مینگل وڈھ سے ریلی کی صورت میں کوئٹہ کے لیے نکلے ہیں تاکہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور ان کے ساتھیوں کی رہائی کے لیے آواز بلند کریں۔ جب سردار اختر مینگل کا قافلہ لکپاس کے مقام پر پہنچا، تو انہیں روک لیا گیا۔ قافلہ وہیں دھرنا دینے بیٹھ گیا — ایک طویل دھرنا، جو پندرہ سے بیس دنوں تک جاری رہا۔
ارحم مسلسل اپنا سوال دہراتا رہا۔ آخر ایک دن میں نے اُسے جواب دیا:
“ارحم بیٹا، سردار اختر مینگل کو بھی راستے میں روک لیا گیا ہے۔ وہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور اُن کے ساتھیوں کی رہائی کے لیے جا رہے تھے، مگر انہیں کوئٹہ جانے نہیں دیا گیا۔ وہ اب لکپاس پر دھرنا دے کر بیٹھے ہیں۔”
چند دن بعد خبر آگئی کہ دھرنا ختم کر دیا گیا ہے۔ ارحم وہ خبر بھی غور سے سن رہا تھا۔ پھر اس نے ایک بار پھر وہی سوال کیا — وہ سوال جو اب ایک چیخ کی مانند محسوس ہونے لگا:
“بابا! اب ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور اُن کے ساتھیوں کو کون جیل سے رہا کرے گا؟ اب تو سردار بھی واپس جا رہے ہیں!”
ارحم کا سوال سن کر میں ایک لمحے کے لیے ساکت ہو گیا۔ زبان خاموش تھی، مگر دل میں ایک طوفان برپا تھا۔ میں نے گہری سانس لی اور کہا:
“ہماری قوم کو اب کسی پارلیمانی یا سرکاری سردار کی قیادت یا سہارے کی ضرورت نہیں — اُن سرداروں کی، جنہیں قوم پہلے ہی آزما چکی ہے۔ اب ہمیں اپنی خودی اور آزادی کو اہمیت دینی چاہیے۔ وقت آ چکا ہے کہ قوم اپنے گھروں سے نکلے، لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر آئے، اور دنیا کو یہ پیغام دے کہ بلوچ قوم اب جاگ چکی ہے۔ ہماری خاموشی اب للکار بنے گی، اور ہمارا اتحاد تبدیلی کی نوید لائے گا۔”
لیکن افسوس، ہمارے لوگوں میں اور مجھ میں وہ خوف اب بھی باقی ہے۔ ہم نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور اُن کے ساتھیوں کی قربانیوں کو سراہا تو ضرور ہے، مگر ابھی تک وہ قربانیاں حقیقی تبدیلی میں ڈھل نہیں سکیں۔
میرے بیٹے کی معصوم نظروں میں سوالوں کی ایک دنیا آباد تھی، اور میرے الفاظ میں اُس قوم کی امید کی تصویر جھلک رہی تھی۔ کاش ہماری یہ قوم باہر نکل آتی، لاکھوں کی تعداد میں، تو میرے جیسے نہ لائق بھی صفِ اول میں ہوتے، اور یہ بچہ مجھ سے یہ سوال نہ کرتا۔ میں خود پر شرمندہ ہوا اور سوچنے لگا کہ اگر قوم کی آواز بلند ہوتی، تو شاید میرے اندر وہ عزم اور حوصلہ ہوتا، جو آج میرے بچے میں دکھائی دے رہا ہے۔
“آج یہ بچہ سوال کر رہا ہے، تو کل شاید قوم کا بچہ بچہ یہی سوال کرے گا: ‘کیا آپ کے آباؤ اجداد اور ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ جیسے لیڈروں نے آزادی اور مستقبل کے لیے جو سوگندیں کھائی تھیں، آپ نے اُن وعدوں کو کیسے نبھایا؟'”
تب مجھے یہ احساس ہوا کہ جب تک قوم کا اتحاد اور حوصلہ بیدار نہیں ہوتا، تب تک ہم خاموشی اور خوف کے سائے میں ہی جیتے رہیں گے۔ ارحم بلوچ کا سوال صرف ایک معصوم سوال نہیں تھا — بلکہ وہ ایک گہرا شعور اور عزم کا عکاس تھا، جو بلوچ قوم کے دلوں میں کہیں دب کر سو رہا تھا، اور اب وہ بچہ اُس سوئی ہوئی آواز کو جگا رہا تھا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں