بلوچستان میں یومِ سوگ: جبری گمشدگیوں اور ریاستی جبر کے خلاف بی وائی سی کے پرامن مظاہرے

1

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی کال پر بلوچستان بھر میں 29 اپریل کو یومِ سوگ منایا گیا۔ اس موقع پر مختلف اضلاع میں شہریوں، خواتین اور بچوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور پرامن احتجاجی مظاہروں کے ذریعے ریاستی جبر، جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف آواز بلند کی۔

بی وائی سی نے یہ دن اپنے گرفتار رہنماؤں ماہ رنگ بلوچ، بیبو بلوچ، گلزادی بلوچ، بیبرگ بلوچ اور شاہ جی صبغت اللہ کی گرفتاری، بلوچستان میں جاری جعلی مقابلوں، جبری گمشدگیوں اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف منانے کا اعلان کیا تھا۔

کوئٹہ میں جبری طور پر لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ، بالخصوص خواتین اور بچے، ڈی سی آفس کے سامنے جمع ہوئے۔ مظاہرین نے اپنے پیاروں کی تصاویر اور ناموں پر مشتمل چارٹ اٹھا رکھے تھے اور خاموشی کے ساتھ دھرنا دے کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ مظاہرین نے واضح پیغام دیا کہ جبری گمشدگیاں اور گرفتاریوں کے باوجود ان کی آواز دبائی نہیں جا سکتی۔

دالبندین میں بھی ڈی سی آفس کے سامنے علامتی سوگ منایا گیا۔ مظاہرین نے خاموش دائرہ بناتے ہوئے لاپتہ اور گرفتار افراد کے ناموں والے چارٹ اٹھا رکھے تھے۔

خضدار میں شہریوں نے پرامن احتجاج کرتے ہوئے ریاستی پالیسیوں پر سوالات اٹھائے۔ مظاہرین نے کہا کہ وہ لاپتہ افراد کو کبھی فراموش نہیں کریں گے اور ان کے لیے انصاف کا مطالبہ کرتے رہیں گے۔

نال (تحصیل خضدار) میں بھی شہریوں نے بی وائی سی کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اجتماع منعقد کیا۔ مظاہرین نے جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل اور ریاستی جبر کے خلاف آواز بلند کی اور مطالبہ کیا کہ لاپتہ افراد کو منظرِ عام پر لایا جائے۔

مستونگ میں یومِ سوگ کے موقع پر چار مختلف مقامات پر علامتی مظاہرے کیے گئے۔ یہ مقامات حالیہ پرتشدد واقعات کی یادگار سمجھے جاتے ہیں، جن میں نواب ہوٹل (جہاں بلوچ راجی مچھی قافلے پر حملہ ہوا۔

گرلز ہائی اسکول (جہاں دھماکے میں متعدد طالبات جاں بحق ہوئیں، سراوان پریس کلب اور میلاد النبی مسجد (جہاں مذہبی اجتماع کے دوران حملہ کیا گیا) شامل ہیں۔

ان مقامات پر مظاہرین نے خاموشی سے کھڑے ہو کر اپنے جذبات اور مطالبات کا اظہار کیا، اور واضح کیا کہ وہ ان واقعات کو نہ صرف یاد رکھیں گے بلکہ ان کے خلاف مزاحمت بھی جاری رکھیں گے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مطابق، یومِ سوگ پر ہونے والے مظاہرے ریاستی جبر، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور سیاسی کارکنان کی گرفتاریوں کے خلاف ایک پرامن، اجتماعی ردِعمل تھے۔ مختلف شہروں میں ہونے والے مظاہرے اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ عوام جبری گمشدگیوں اور دیگر ریاستی کارروائیوں کے خلاف خاموش نہیں بیٹھیں گے اور اپنے پیاروں کے لیے انصاف کی جدوجہد جاری رکھیں گے۔