جنیوا: اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے پاکستان کی انسدادِ دہشت گردی پالیسیوں کے نتیجے میں بلوچستان میں پیدا ہونے والے سنگین اور مضر اثرات پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے زور دیا ہے کہ انسداد دہشت گردی کے تمام اقدامات بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کے اصولوں کے مطابق ہونے چاہییں۔
ماہرین نے کہا کہ وہ بلوچستان میں مسلح گروہوں سے لاحق سنگین خطرات کو تسلیم کرتے ہیں اور دہشت گردی کے متاثرین سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں، تاہم انہوں نے واضح کیا کہ انسدادِ دہشت گردی کی ہر کارروائی میں انسانی حقوق اور بین الاقوامی انسان دوست قوانین کا احترام لازم ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے مسلسل واقعات پر سخت تشویش ظاہر کی، جنہیں انہوں نے ایک سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور بین الاقوامی جرم قرار دیا۔
انہوں نے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ ایک آزاد، مؤثر اور شفاف تحقیقاتی نظام قائم کرے تاکہ جبری طور پر لاپتہ افراد کی تلاش ممکن ہو، جبری گمشدگی کو جرم قرار دیا جائے اور ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
ماہرین نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ “جبری گمشدگی سے تحفظ فراہم کرنے والے بین الاقوامی کنونشن” کی توثیق کرے اور “کمیٹی برائے جبری گمشدگیاں” کو شکایات سننے اور ان پر کارروائی کا اختیار دے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ پاکستان میں انسانی حقوق، اقلیتی حقوق اور عوامی احتجاج کو دہشت گردی سے جوڑنے کی پالیسی آزادیِ اظہار، اجتماع اور تنظیم سازی کے حق کو شدید خطرے میں ڈال رہی ہے۔ بلوچستان میں انٹرنیٹ کی بار بار بندش نے معلومات تک رسائی، شفافیت، احتساب، سیاسی شمولیت اور شہری آزادیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
ماہرین نے بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے عام شہریوں، خاص طور پر پُرامن مظاہرین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف تشدد، ماورائے عدالت قتل اور بدسلوکی کی رپورٹس کی شدید مذمت کی۔
انہوں نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں، ان کے حامیوں، اہلِ خانہ اور وکلا کے خلاف انتقامی کارروائیوں پر بھی تشویش ظاہر کی اور کہا کہ اقوامِ متحدہ سے رابطہ کرنے والے متاثرین کے رشتہ داروں کو ریاستی انتقام کا سامنا ہو سکتا ہے۔
ماہرین نے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو فوری طور پر روکے، ذمہ داروں کا احتساب یقینی بنائے اور متاثرین کو انصاف فراہم کرے۔
آخر میں ماہرین نے انسداد دہشت گردی ایکٹ میں “دہشت گردی” کی مبہم اور وسیع تعریف پر بھی نکتہ چینی کی، جس کے تحت انسانی حقوق کے کارکنان، طلبہ، اساتذہ، سرکاری ملازمین اور شہری رہنماؤں کو دہشت گرد قرار دے کر فہرستوں میں شامل کیا گیا ہے۔ کئی معروف بلوچ کارکنان کو ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ECL) میں بھی شامل کیا گیا ہے، جس کے باعث انہیں ملک چھوڑنے سے روکا جا رہا ہے۔