انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں منگل کو ہونے والے حملے میں 26 افراد کی ہلاکت کے بعد انڈیا نے پاکستان کے حوالے سے جو متعدد سخت اقدامات کیے ہیں اُن میں اٹاری-واہگہ سرحد کی بندش، سفارتی عملے میں کمی اور ویزوں پر پابندی کے علاوہ چھ دہائی پرانے سندھ طاس معاہدے پر عملدرآمد کی معطلی بھی شامل ہے۔
سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا فیصلہ بدھ کو وزیراعظم نریندر مودی کی سربراہی میں انڈیا کی سلامتی سے متعلق کابینہ کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا۔
اس اجلاس میں کیے گئے فیصلوں کا اعلان کرتے ہوئے انڈیا کے سیکریٹری خارجہ وکرم مسری کا کہنا تھا کہ سندھ طاس معاہدہ فوری طور پر معطل کر دیا گیا ہے اور انڈیا نہ ہی اب اس پر عملدرآمد کرے گا اور نہ ہی اس کا پابند ہوگا تاوقتیکہ پاکستان کے سرحد پار دہشت گردی کی حمایت ترک کرنے کے ناقابلِ تردید ثبوت نہیں ملتے۔
یاد رہے کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت انڈیا کو بیاس، راوی اور دریائے ستلج کے پانی پر جبکہ پاکستان کو تین مغربی دریاؤں سندھ، چناب اور جہلم کے پانی پر اختیار دیا گیا تھا تاہم اِن تینوں دریاؤں (سندھ، چناب، جہلم) کے بھی 20 فیصد پانی پر انڈیا کا حق ہے۔
انڈیا کی جانب سے سندھ طاس معاہدے پر عملدرآمد معطل کرنے کا اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب پاکستان پہلے ہی پانی کی کمی کا سامنا کر رہا ہے اور وفاقی حکومت کی جانب سے ملک میں چھ نہروں کی تعمیر کے منصوبے پر بھی پنجاب اور سندھ کے صوبوں میں تنازع جاری ہے۔
انڈیا کی جانب سے معاہدے پر عملدرآمد معطل کرنے کا کیا مطلب ہے؟
اس بارے میں بی بی سی اُردو کے عماد خالق سے بات کرتے ہوئے سندھ طاس معاہدے کے سابق ایڈیشنل کمشنر شیراز میمن کا کہنا تھا کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت دونوں ممالک کی بنیادی ذمہ داریوں میں کم از کم سال میں ایک مرتبہ دونوں ممالک کے واٹر کمشنرز کا اجلاس ہونا، دریاؤں میں پانی کے بہاؤ کا ڈیٹا شیئر کرنا اور دونوں اطراف دریاؤں پر جاری پراجیکٹس پر دوسرے ممالک کی معائنہ ٹیموں کے دورے کرنا شامل ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے انڈس واٹر کمشنرز عموماً مئی کے مہینے میں یہ اجلاس کرتے ہیں اور دونوں ممالک کی حکومتوں کو اس کی سالانہ رپورٹ یکم جون کو پیش کی جاتی ہے۔ شیراز میمن کے مطابق عملدرآمد کی معطلی کا مطلب یہ ہے یہ اجلاس، معائنہ دورے یا دریاؤں میں پانی کے بہاؤ کی ڈیٹا شیئرنگ نہیں ہوگی۔
انھوں نے کہ انڈیا نے اس معاہدے پر عملدرآمد روکنے کا اعلان اب کیا ہے مگر عملاً وہ تقریباً چار برسوں سے اس پر عملدرآمد روک چکا ہے۔
ان کے مطابق انڈیا گذشہ چار برس سے ویسے بھی واٹر کمشنرز کا سالانہ اجلاس منعقد نہیں کر رہا۔ جبکہ دریاؤں میں پانی کا ڈیٹا بھی 30 سے 40 فیصد ہی فراہم کر رہا ہے۔ ’انڈیا صرف 30 سے 40 فیصد ڈیٹا ہی دے رہا ہے باقی پر وہ نِل یا نان آبزروینٹ لکھ کر بھیج رہا ہے۔‘
سابق ایڈیشنل انڈس واٹر کمشنر شیراز میمن کا کہنا تھا کہ یہ ڈیٹا شیئرنگ نہ ہونے سے پاکستان کو زیادہ فرق نہیں پڑے گا ’کیونکہ ہم اپنی طرف دریاؤں پر آلات لگا کر پانی کے بہاؤ کا تخمینہ لگا سکتے ہیں۔‘
آبی امور کے ماہر ڈاکٹر شعیب نے اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوے کہا کہ انڈیا نے اپنے بیان میں عملدرآمد کو معطل کرنے کی تعریف یا تفصیلات نہیں بتائیں کہ وہ اس فیصلے کے تحت کیا کریں گے۔
اُن کا کہنا تھا کہ معاہدے کے تحت انڈیا پاکستان کے حصے کے دریاؤں کا 19.84 فیصد پانی پہلے ہی روکتا ہے اور وہ اسے پانی ذخیرہ کرنے کے اپنے وسائل میں جمع کر رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ صرف کمشنر کے سالانہ اجلاس، دریاؤں میں پانی کے ڈیٹا شیئرنگ اور دونوں انڈس واٹر کمشنرز کے مابین رابطے میں تعطل کے علاوہ اس معطلی کا کوئی خاص مطلب نہیں ہے۔
معاہدے کی معطلی پاکستان کے لیے کس قسم کی مشکلات پیدا کر سکتی ہے؟
مگر انڈیا کا یہ اعلان پاکستان کے لیے کس قسم کی مشکلات پیدا کر سکتا ہے؟ اس سوال پر سابق ایڈیشنل انڈس واٹر کمشنر شیراز میمن کا کہنا تھا قلیل مدتی لحاظ سے اس کا پاکستان پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ انڈیا پاکستان کے حصے کا پانی روک نہیں سکتا کیونکہ اس کے پاس فی الوقت کوئی ایسا ذخیرہ یا وسائل نہیں جہاں وہ ان دریاؤں کے اس پانی کو جمع کر سکے۔
تاہم شیراز میمن نے یہ بھی کہا کہ اگر یہ تعطل جاری رہتا ہے تو طویل مدت میں اس کا نقصان پاکستان کو اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ انڈیا ان دریاؤں پر جو ڈیمز، بیراج یا پانی ذخیرہ کرنے کے انفراسٹرکچر بنا رہا ہے وہ ان کا ڈیزائن پاکستان کو مطلع کیے بغیر تبدیل کر سکتا ہے۔
انھوں نے بتایا اس معاہدے کے تحت انڈیا پاکستان کو اپنے ہر آبی منصوبے کے ڈیزائن اور مقام کے متعلق تفصیلات دینے کا پابند ہے اور وہ ماضی میں ایسا کرتا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ وہ پاکستان کو بنا بتائے ایسے مزید منصوبے کر سکتا ہے جس کا اثر پاکستان کے حصے میں آنے والے پانی پر پڑے۔
تاہم شیراز میمن کے مطابق ایسا کرنا انڈیا کے لیے آسان نہیں ہو گا کیونکہ عالمی بینک اس معاہدے کا ثالث ہے اور پاکستان اس مسئلے کو بین الاقوامی عدالت میں بھی لے جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر شعیب بھی ایڈیشنل کمشنر انڈس واٹر ٹریٹی کے بیان سے متفق نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ معطلی محض سیاسی بیان بازی ہے اور اس سے پاکستان پر زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔
’انڈیا پاکستان کے پانی کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے، نہ اس کے پاس اس کا کوئی جواز اور اس کے وسائل موجود ہیں۔‘
سابق وفاقی سیکریٹری واٹر اینڈ پاور محمد یونس ڈھاگا بھی کہتے ہیں کہ ’یہ انڈیا کی سیاسی کم فہمی کے نتیجے میں دیا گیا بیان ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک عالمی معاہدہ ہے جس کے ثالت عالمی ادارے ہیں اور اس کی معطلی انڈیا کے لیے ممکن نہیں اور یہ محض ایک سیاسی بیان سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔‘
سندھ طاس معاہدہ کیا ہے؟
انڈیا اور پاکستان نے دریائے سندھ اور معاون دریاؤں کے پانی کی تقسیم کے لیے عالمی بینک کی ثالثی میں نو برس کے مذاکرات کے بعد ستمبر 1960 میں سندھ طاس معاہدہ کیا تھا۔
اس وقت انڈیا کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور پاکستان کے اس وقت کے سربراہ مملکت جنرل ایوب خان نے کراچی میں اس معاہدے پر دستخط کیے تھے اور یہ امید ظاہر کی گئی تھی کہ یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے کاشتکاروں کے لیے خوشحالی لائے گا اور امن، خیر سگالی اور دوستی کا ضامن ہو گا۔
دریاؤں کی تقسیم کا یہ معاہدہ کئی جنگوں، اختلافات اور جھگڑوں کے باوجود 65 برس سے اپنی جگہ قائم ہے۔
اس معاہدے کے تحت انڈیا کو بیاس، راوی اور دریائے ستلج کے پانی پر مکمل جبکہ پاکستان کو تین مغربی دریاؤں سندھ، چناب اور جہلم کے پانی پر اختیار دیا گیا تھا تاہم ان دریاؤں کے 80 فیصد پانی پر پاکستان کا حق ہے۔
انڈیا کو مغربی دریاؤں کے بہتے ہوئے پانی سے بجلی پیدا کرنے کا حق ہے لیکن وہ پانی ذخیرہ کرنے یا اس کے بہاؤ کو کم کرنے کے منصوبے نہیں بنا سکتا۔ اس کے برعکس اسے مشرقی دریاؤں یعنی راوی، بیاس اور ستلج پر کسی بھی قسم کے منصوبے بنانے کا حق حاصل ہے جن پر پاکستان اعتراض نہیں کر سکتا۔
معاہدے کے تحت ایک مستقل انڈس کمیشن بھی قائم کیا گیا جو کسی متنازع منصوبے کے حل کے لیے بھی کام کرتا ہے تاہم اگر کمیشن مسئلے کا حل نہیں نکال سکتا تو معاہدے کے مطابق حکومتیں اسے حل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
اس کے علاوہ، معاہدے میں ماہرین کی مدد لینے یا تنازعات کا حل تلاش کرنے کے لیے ثالثی عدالت میں جانے کا طریقہ بھی تجویز کیا گیا تھا۔