بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے ہدہ جیل کوئٹہ سے ایک پیغام میں کہا ہے کہ ہمارے لیے آج یہ سوال بہت اہم ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ آج، جس وقت میں یہ خط کال کوٹھریوں سے تحریر کر رہی ہوں، اس وقت ہماری تنظیم اور تحریک بدترین ریاستی مظالم کا سامنا کر رہی ہیں۔ ہمارے متعدد ساتھی جیلوں میں قید ہیں، اور جیل سے باہر ہماری تنظیم پر بدترین قدغنیں لگائی گئی ہیں۔ میرے نزدیک اہم سوال یا اہم مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ہم پر تشدد کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے، ہمیں گرفتار کیا جا رہا ہے یا ہم جیلوں میں قید ہیں، بلکہ میرے نزدیک اہم سوال یہ ہے کہ ہمیں بحیثیتِ تنظیم ان حالات میں کیا کرنا ہے؟ میں سمجھتی ہوں کہ اگر ہم اس سوال پر غور و فکر کیے بغیر آگے بڑھنے کی کوشش کریں تو شاید ہم بحیثیتِ تنظیم آگے نہ جا سکیں۔
جب میں گرفتار ہوئی، میرے ساتھی گرفتار ہوئے، تنظیم پر بدترین جبر (کریک ڈاؤن) (ویسے دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم اس لفظ “کریک ڈاؤن” کا بھی غلط استعمال کر رہے ہیں، ہم پر کریک ڈاؤن نہیں ہو رہا بلکہ ہم کالونیل جبر کا سامنا کر رہے ہیں) کا آغاز ہوا ہے، تو اس صورتِ حال کا خاصا اندازہ تو ہمیں اور ہماری تنظیم کو پہلے سے تھا، لیکن پھر بھی ہمیں حالات کی گہرائی سے جستجو کرنے کی ضرورت ہے۔
پیغام میں کہا ہے کہ میرے نزدیک تشدد، گرفتاری، جیل یا ان کے ردِعمل میں بڑے پیمانے پر احتجاج نہ کرنا شکست کی علامت نہیں ہے، اور میں قطعی طور پر ایسی باتوں پر ذرہ برابر بھی یقین نہیں رکھتی ہوں۔ میرے نزدیک شکست، سیاسی اور فکری پسماندگی ہے۔ جب ہم سیاسی اور فکری طور پر پسماندہ ہو جائیں یا کھوکھلے ہو جائیں، تو وہ دن ہماری شکست کا دن ہوگا۔ان حالات میں ہماری دیگر اہم ذمہ داریوں میں سے ایک یہ ہے کہ ہم بحیثیتِ سیاسی کارکن اپنے آپ کو سیاسی اور فکری پسماندگی سے کیسے محفوظ رکھیں گے۔ فکری پسماندگی سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کا سب سے اعلیٰ ذریعہ “تنظیم” ہے۔ لیکن صرف تنظیم کا ہونا ازخود کافی نہیں ہے،بلکہ تنظیم میں مرکزیت کے گرد ایک ترقی یافتہ سیاسی شعور کا موجود ہونا بھی ضروری ہے، جو پورے ایک نیٹ (جال) کی طرح یونٹ سے لے کر مرکز تک تمام کیڈرز اور ذیلی اداروں کو اس ترقی یافتہ سیاسی شعور سے لیس کرے۔
اگر ہم تنظیمی اور تحریکی ترقی چاہتے ہیں، اور اپنے آپ کو سیاسی پسماندگی سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں، تو اس وقت ہماری تمام تر توجہ ان امور پر مرکوز ہونی چاہیے۔ اس نکتہ سے انکار کسی بھی صورت ممکن نہیں ہے کہ اس وقت ہمارے پاس نہ صرف سیاسی شعور سے لیس تنظیم موجود ہے بلکہ عہدِ حاضر میں وہ منظم بھی ہے۔ لیکن اپنی موجودہ حیثیت پر مکمل طور پر مطمئن ہونا یا خوش فہمی کا شکار ہونا، اپنے آپ کو جمود کا شکار کرنے جیسا ہے۔ ہمیں کسی بھی صورت ترقی اور آگے بڑھنے کے سفر کو نہیں روکنا چاہیے، اور اس کے لیے ہمیں مسلسل محنت، غور و فکر، اور جستجو جیسے تخلیقی ماحول کو پروان چڑھانا ہے۔
انہوں نے کہاکہ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ بی وائی سی جیسی تنظیم کسی حادثے یا ایک مخصوص ایونٹ کی پیداوار نہیں ہے، بلکہ یہ مسلسل جدوجہد، غور و فکر، اور جستجو کی پیداوار ہے، اور اس کی کامیابی کے لیے بھی مسلسل جدوجہد، غور و فکر، اور جستجو ضروری ہے۔ہمارے لیے ہر وقت تنظیم اعلیٰ اور اہم رہی ہے، اور اسے ہمیشہ اہم و اعلیٰ ہونا چاہیے، کیونکہ ہم جس جبر کے نظام کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں، اُسے ایک منظم تنظیم کے بغیر شکست دینا ناممکن ہے۔لہٰذا، اس وقت ہماری توجہ ایک منظم تنظیم پر ہونی چاہیے۔ہمیں کسی ایک لمحے کے لیے بھی اپنے جذبات کو عقل پر حاوی نہیں ہونے دینا ہے۔ہمیں کسی بھی ایسے نقطے سے دور رہنا ہے جو ہماری تنظیم کی اجتماعی قوت کو کمزور کرے۔ہمیں بد سے بدترین صورتِ حال میں بھی منتشر نہیں ہونا ہے۔منظم رہنا ہماری مجبوری نہیں بلکہ ہماری طاقت ہے۔ہمیں ہر طرح کی صورتِ حال میں منظم رہنا ہے۔ہمارے ہر ایک کارکن کو اپنے نفسیات اور اعصاب پر مکمل اختیار ہونا چاہیے، اور کسی بھی دباؤ کی صورت میں ایسے عمل سے اجتناب برتنا چاہیے جس سے تنظیم اور اجتماعی مقصد متاثر ہو۔ معمولی سے معمولی فیصلہ لینے کے لیے بھی ہمیں حالاتِ حاضرہ کا مکمل ادراک ہونا ضروری ہے۔ہمیں سوشل میڈیا کی کج بحثی سے متاثر ہو کر کسی بھی صورت تنظیمی فیصلے نہیں لینے ہیں۔
آخر میں کہا کہ کامیابی ہر حال میں ہماری ہے، بس ہمت، جرأت اور غور و فکر سے اس جدوجہد کو آگے لے جانا ہے۔