پہاڑوں کی بیٹیاں: درد سے قیادت تک – حکیم واڈیلہ

137

پہاڑوں کی بیٹیاں: درد سے قیادت تک

تحریر: حکیم واڈیلہ

دی بلوچستان پوسٹ

تاریخِ انسانی کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے تو عورت کو ہمیشہ سیاست اور جنگ کے میدان میں عملی کردار ادا کرتے ہوئے پایا گیا ہے۔ حضرت اُمّ عمارہ (نسیبہ بنت کعب رضی اللہ عنہا) اسلامی تاریخ کی ان بہادر خواتین میں شامل ہیں جنہوں نے غزوۂ اُحد میں حصہ لیا۔ انہوں نے نہ صرف مجاہدین کو پانی پلایا، بلکہ جب کفار نے پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کیا تو انہوں نے مشکیزہ پھینک دیا اور خنجر لے کر پیغمبر کی حفاظت میں کھڑی ہوگئیں۔ اس معرکے میں اُن کے سر اور گردن پر تقریباً تیرہ زخم آئے۔ اس عظیم قربانی کی مثال نے عورتوں کو ہمیشہ جرأت و استقامت کی راہ دکھائی ہے۔

اسلامی تاریخ میں حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ عنہا کا کردار بے حد اہم ہے، جنہوں نے ابتدائی دورِ دعوت میں نہ صرف اخلاقی بلکہ مالی تعاون بھی فراہم کیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جنگِ جمل میں لشکر کی قیادت کی، اور حضرت بی بی صفیہ رضی اللہ عنہا نے غزوۂ خندق میں جنگی کردار ادا کیا۔ عورت کا جنگی، سیاسی، انقلابی اور رہنمائی کا کردار ہمیں عرب کے صحراؤں سے لے کر امریکہ، یورپ اور سوویت یونین کے انقلابات تک واضح طور پر نظر آتا ہے۔ وہ ہمیشہ بہادری، بے باکی اور نظریاتی استقامت کی علمبردار رہی ہیں۔

آج بھی ہمیں عورتیں آئرلینڈ، ویتنام، فلسطین، کردستان، جنوبی افریقہ سمیت دنیا بھر کی آزادی کی تحریکوں میں جدوجہد کرتی نظر آتی ہیں۔ کہیں وہ جھانسی کی رانی کی صورت میں انگریزوں سے لڑتی دکھائی دیتی ہیں، تو کہیں ویتنام کی جنگلوں میں امریکی سامراج کو شکست دینے والی مجاہدہ نظر آتی ہیں۔ فلسطین میں وہ مزاحمت کی علامت بنتی ہیں، اور کردستان میں گوریلا ساتھیوں کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہو جاتی ہیں۔ آئرش آزادی کی تحریک میں 1916 کی ایسٹر رائزنگ کے دوران عورتوں نے برطانوی سامراج کے خلاف بھرپور جنگ لڑی۔

تاریخِ انسانی، عورت کی عظمت سے بھری پڑی ہے۔ کہیں وہ ماں کی صورت میں انقلابی بچوں کی پرورش کرتی ہے تو کہیں ونی منڈیلا بن کر اپنے شوہر نیلسن منڈیلا کی گرفتاری کے بعد بھی اپارتھائیڈ رجیم کے خلاف جدوجہد کی قیادت کرتی ہے۔ یہی عظمت بلوچ عورت میں بھی نمایاں ہے۔ دودا کی ماں، بی بی گل بانو، بی بی ماہ گل، بی بی نوچ، شہید ڈاکٹر خالد کی والدہ، یا لمہ یاسمین – سب نے تاریخ میں اپنے عظیم کردار سے بلوچ سماج کو روشنی دی ہے۔ لمہ یاسمین کی مثال، جو اپنے بیٹے فدائی ریحان اسلم کو جدوجہد کے لیے روانہ کرتے ہوئے اپنے جذبات پر قابو رکھتی ہیں، بلوچ عورت کی قربانی، شعور اور سرزمین سے محبت کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔

بلوچ عورت، ہمیشہ سے گھرداری تک محدود نہ رہی ہے۔ وہ فیصلہ سازی، جنگ، سیاست اور محبت کی داستانوں کا اہم کردار رہی ہے۔ آج بلوچ عورت سماج کا آئینہ ہے، جو نہ صرف ظلم و جبر کے خلاف لڑ رہی ہے بلکہ پاکستانی ریاست کے جھوٹ پر مبنی بیانیے کو چیلنج بھی کر رہی ہے۔ ریاست پاکستان، جس نے بلوچ نسل کشی کو ترقی و سالمیت کا نام دیا، مذہب اور بھائی چارے جیسے نعرے لگا کر بلوچوں کو اپنے وسائل لوٹنے پر راضی کرنے کی کوشش کی، اب خود اپنے فریب میں الجھ چکی ہے۔ لیکن بلوچ قوم، خاص طور پر بلوچ عورت، ان سازشوں کو بخوبی سمجھ چکی ہے۔

ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ کی گرفتاری، اور ان پر تشدد کے باوجود ان کی استقامت، ریاست کو ناکامی کا منہ دکھا چکی ہے۔ ریاست نے جن خواتین کو کمزور سمجھا، وہی ریاست کے خلاف مزاحمت کی علامت بن گئی ہیں۔ ڈاکٹر صبیحہ بلوچ، سمی دین بلوچ، گل زادی، اور بیبو بلوچ جیسی خواتین نے ثابت کیا ہے کہ بلوچ قوم کی بیٹیاں ہر محاذ پر قیادت کے لیے تیار ہیں۔ ریاست جب صبیحہ بلوچ کو نہ پکڑ سکی تو ان کے والد کو ہدف بنا لیا، جو اس بوکھلاہٹ اور خوف کی واضح علامت ہے۔

‏بلوچ یکجہتی کمیٹی پر ریاستی کریک ڈاؤن، دراصل ان شکستوں کو چھپانے کی ناکام کوشش ہے جو اسے بلوچ مزاحمتی تنظیموں سے مسلسل ہو رہی ہیں۔ جعفر ایکسپریس پر حالیہ حملہ اس کی مثال ہے۔ ریاست ایک ایسی شکست خوردہ اور نرگسیت زدہ قوت میں بدل چکی ہے جو اپنی خامیوں سے سبق لینے کے بجائے پرانے ڈرامائی مکالمے دہرا رہی ہے، جیسے اس نے بنگلہ دیش کے خلاف کیے تھے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی پر ریاستی کریک ڈاؤن، دراصل ان شکستوں کو چھپانے کی ناکام کوشش ہے جو اسے بلوچ مزاحمتی تنظیموں سے مسلسل ہو رہی ہیں۔ جعفر ایکسپریس پر حالیہ حملہ اس کی مثال ہے۔ ریاست ایک ایسی شکست خوردہ اور نرگسیت زدہ قوت میں بدل چکی ہے جو اپنی خامیوں سے سبق لینے کے بجائے پرانے ڈرامائی مکالمے دہرا رہی ہے، جیسے اس نے بنگلہ دیش کے خلاف کیے تھے۔

بلوچ قوم کے لیے وقت آ گیا ہے کہ وہ ماہرنگ، سمی، صبیحہ جیسی بیٹیوں کو صرف بہن یا بیٹی نہ سمجھے بلکہ رہنما تسلیم کرے۔ بلوچ عوام کو ان خواتین کا پیغام عام کرنا ہوگا تاکہ ہر بلوچ ماں اپنی بیٹی کو ماہرنگ یا سمی جیسا بننے کی تلقین کرے، اور ہر بچی شعوری، سیاسی اور انقلابی شعور سے آراستہ ہو۔ تب جا کر بلوچوں کے خوابوں کی وہ صبح حقیقت کا روپ دھارے گی، جس کے لیے ہزاروں نوجوان شہید ہو چکے ہیں اور ہزاروں آج بھی زندانوں میں قید ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں