کوئٹہ: عدالتیں جب ریلیف نہیں دینگے تو لوگ مزاحمت کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ سردار اختر مینگل

154

بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے دیگر پارٹی قائدین کے ہمراہ کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بی این پی کی مرکزی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں لانگ مارچ کے راہ میں رکاوٹوں پر جائزہ لیا گیا، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں ماینز اینڈ منرل ایکٹ اور سندھ کے 6 کینالز پر غور و خوص ہوا، تھری ایم پی او کے تحت ڈاکٹر ماہ رنگ، بیبو، گلزادی، صغبت اللہ سمیت بی وائی سی کے سینکڑوں کارکنوں کے لئے 20 دن تک دھرنا دیا، ماہ رنگ بلوچ کی بہن کی درخواست 14 دن بعد محفوظ فیصلہ غیر محفوظ ہونے کے بعد دوبارہ گیند محکمہ داخلہ کے پاس گیا۔

انہوں نے کہا بلوچستان ہائیکورٹ کی بلڈنگ میں ایک ہی نوعیت کے کیس میں 2 الگ الگ فیصلے آتے ہیں، ہمارے 70 سے زائد کارکنوں کو بھی تھری ایم پی او میں حراست میں لیا گیا ہے، عدالتیں جب ریلیف نہیں دینگے تو لوگ مزاحمت کا راستہ اختیار کرتے ہیں، ان تمام اقدامات کا مقصد وسائل کو لوٹنا اور بلوچستان کے سائل پر قبضہ کرنا ہے۔

سردار اختر نے کہا بلوچستان میں فارم 47 کے ذریعے مائنز اینڈ منرل ایکٹ پاس کروایا جاتا ہے، پی پی ایل کا معاہدہ 2015 سے چل رہا ہے تین حکومتوں نے توسیع نہیں کی لیکن نگران حکومت یہ معاملہ ای سی سی کو بھیجتا ہے، موجودہ حکومت نے پی پی ایل کے معاہدے پر دستخط کرکے 18 ویں ترمیم کی مخالفت کی، 18 ویں ترمیم بنانے والی جماعت نے خود اس ترمیم کی مخالفت کی، تمام معاملات کو دیکھتے ہوئے احتجاج کو مزید سخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

سردار اختر مینگل نے کہا 23 اپریل کو خضدار، 2 مئی کو کوئٹہ، جبکہ گوادر، نوشکی اور حب میں احتجاجی جلسے منعقد کرینگے۔ مائنز اینڈ منرل ایکٹ اور پی پی ایل معاہدے کے خلاف قانونی و آئینی درخواست دائر کرینگے، قانونی ٹیموں سے مشاورت مکمل کرنے کے بعد بلوچستان ہائیکورٹ سے رجوع کرینگے، قانونی چارہ جوئی کےلئے تمام سیاسی جماعتوں سے رجوع کریں گے۔ بلوچستان اسمبلی میں مائنز اینڈ منرل ایکٹ کے پاس کرانے میں تمام سیاسی جماعتیں شامل تھیں کسی کو شوق پورا کرنا ہے آج کوئٹہ میں آکر گرفتار کریں، قدوس بزنجو کے دور میں جام یوسف کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں شریک تھے۔ قدوس بزنجو کو منتخب کرانے میں ہم نے کوئی ووٹ نہیں دیا، تحفظ آئین پاکستان کا حصہ تھے اور اب بھی ہیں، عدالتیں جو فیصلہ دیں قانونی چارہ جوئی ہمارا حق ہے۔ قدوس بزنجو کے دور میں جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں شریک تھے۔